Saturday, 14 December 2013

سبزیوں کی خصوصیت اور غذائی اہمیت

سبزیات انسانی غذا میں بہت اہم مقام رکھتی ہیں کیونکہ ان میں وہ تمام اجزاءپائے جاتے ہیں جو اکثر اجناس میں بہت قلیل مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ سبزیات میں لحمیات، حیاتین اور معدنی اجزاءبکثرت پائے جات ہیں جو انسانی جسم میں مختلف افعال کو درست رکھنے میں معاون ہوتے ہیں۔ سبزیوں کا استعمال براہ راست سلاد کی شکل میں یا ابال کر یا ہنڈیا میں پکا کر یا کچھ سبزیات مصالحہ جات کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں جن سے نہ صرف خوراک کو خوش ذائقہ بنایا جا سکتا ہے بلکہ ان کی غذائی اور طبی اہمیت بھی مسلمہ ہے۔ سبزیات میں موجود کچھ اجزاءجسم میں بیماری کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرتے ہیں،ہمارے جسم کی نشوونما اور بڑھوتری میں معاون ہوتے ہیںاور انسانوں کو مختلف بیماریوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔ سائنسدان سبزیوں کو حفاظتی خوراک (Protective Food) کا نام دیتے ہیں کیونکہ ان کا مناسب مقدار میں باقاعدہ استعمال انسان کو مختلف بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ خوراک میں سبزیوں کے کم استعمال کی وجہ سے جسم میں خون کی کمی ہو جاتی ہے۔ سبز پتوں والی سبزیوں (پالک، سرسوں کا ساگ اور میتھی) میں معدنی نمکیات لوہا، چونا اور فاسفورس کافی مقدار میں موجود ہوتے ہیں جو جسم میں خون کی کمی، ہڈیوں اور دانتوں کی کمزوری کو دور کرتے ہیں۔ کچھ سبزیوں (پیاز اور لہسن) میں ایسے کیمیائی مرکبات موجود ہوتے ہیں جو شریانوںمیں فالتو چربی کو جمنے نہیں دیتے اور اسے تحلیل کرنے کی قدرتی صلاحیت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے انسان دل کی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔سبزیاں زود ہضم اور ریشہ دار ہونے کی وجہ سے انسانی جسم سے تمام فاسد مادوں کو نکال باہر کرتی ہیں۔

 پاکستان میں کل کاشتہ رقبہ کے 2.8 فیصد رقبہ پر سبزیات کاشت کی جاتی ہیں۔ سبزیوں کے کل کاشتہ رقبہ کا 50 فیصد او رپیداوار کا 60 فیصد پنجاب سے حاصل ہوتا ہے۔ پنجاب میں 36 سبزیات موسم گرما و سرما میں کاشت کی جاتی ہیں۔ سردیوں کی سبزیوں میں گاجر، مولی، شلجم، میتھی، پالک، سرسوں، پھول گوبھی، بند گوبھی، مٹر، آلو، ادرک اور لہسن وغیرہ جبکہ گرمیوں کی سبزیوں میں کدو، ٹینڈا، کریلا، بھنڈی، بینگن ، بعض سبزیوں (آلو، شکرقندی، کچالو) میں نشاستہ کافی مقدار میں پایا جاتا ہے اور یہ سبزیاں دیگر اجناس خوردنی مثلاً گندم، مکئی اور چاول وغیرہ کی نسبت پیداوار بھی زیادہ دیتی ہیں۔ اسی بناءپر ان سبزیوں کا استعمال بڑھا کر ہم گندم، مکئی او ر چاول کے استعمال کو کم اور خوراک کی کمی کے مسئلہ کو آسانی سے حل کر سکتے ہیں۔سبزیوں کی برداشت کے دوران یا بعد میں کاشتکاروں،دوکانداروں اور گھروں میں سبزی پکانے والوں کی لا علمی کی وجہ سے سبزیات کی بہت ساری غذائیت ضائع ہو جاتی ہے۔ اس لئے ہر ممکن کوشش کریں کہ کھانے کے وقت تک سبزیوں میں زیادہ سے زیادہ غذائیت برقرار رہے تاکہ ہم سبزی کے صحیح ذائقہ سے لطف اندوز ہو سکیں اور سبزی کی دیگر تمام خوبیوں کا فائدہ اٹھا سکیں۔
سبزیوں کی غذائیت برقرار رکھنے کےلئے سبزیوں کی مختلف نقصان رساں کیڑوں اور بیماریوں کے حملہ سے بروقت بچائیں تاکہ سبزیوں کی پیداوار بھی متاثر نہ ہو اور غذائیت بھی برقرار رہے۔کیڑوں اور بیماریوں کے انسداد کےلئے نئی تحقیق شدہ جدید دوائیں استعمال کریں۔ ایسی زہروں کا استعمال کریں جن کا اثر 24 گھنٹے سے زائد نہ ہو۔ سپرے شدہ سبزیوں کواچھی طرح دھو کر استعمال کریں۔ کھیرا، تر ککڑی، ماہڑو، سبز ٹینڈی، مٹر، ٹینڈہ، بھنڈی، توری، کریلا اور کدو وغیرہ کو بروقت برداشت کریں۔ سبزیات کی برداشت شام کے وقت کریں۔سبزیوں کو پتوں اور چھلکوں سمیت پکائیں کیونکہ بعض سبزیوں کے پتوں اور چھلکوں میں لحمیاتی اجزاءاور حیاتین سبزی سے تین سے چار گنا زیادہ موجود ہوتے ہیں۔ سبزیوں کو اپنے ہی پانی میں ہلکی آنچ پر پکائیں اور پکنے کے دوران سبزی کو چمچے سے زیاد نہ ہلائیں کیونکہ اس طرح حیاتین کی مقدار ضائع ہو جاتی ہے ۔ سبزی پکانے والے برتن کو قلعی شدہ اور صاف ستھرا رکھیں اور سبزی پکاتے وقت میٹھے سوڈے کا استعمال نہ کریں اس سے سبزیوں کی غذائیت متاثر ہوتی ہے ۔ کاشتکاروں اور گھریلو خواتین کو چاہئے کہ وہ جدید زرعی سفارشات پر عمل کر کے سبزیات میں موجود غذائی اجزاءکو برقرار رکھیں اور اپنی روز مرہ خوراک میں غذائیت سے بھر پور سبزیات کے استعمال کو بڑھائیں۔

Thursday, 5 December 2013

گھر میں کیمیکلز سے پاک سبزیاں اگائیں

جس طرح سزیوں کی قیمتیں بلند ہو رہی ہیں تو آپ آپنے ہوصلے کو بھی بلند کرتے ہوئے گھر میں سبزیوں کو اگانے کا آغاز کریں تاکہ تازہ اور کیمیکلز سے پاک سبزیاں آپ کے گھر والوں کو نصیب ہوں اور آپ اور آپ کے گھر والے مختلف بیماریوں سے محفوظ رہیں۔اس کا آغاز چند اینٹوں کی کیاری بنا کر بھی آپ کرسکتے ہیں۔ نرسری سے بنے بنائے گملے خرید کر بھی گھریلو باغبانی کر سکتے ہیں۔ آپنے بچوں میں بھی شوق پیدا کرنے کیلئے مختلف گملوں کے نام آپ آپنے بچوں کے ناموں سے منصوب کرسکتے ہیں اسطرح بچوں میں صحت مندانہ مقابلے کا رجہان پیدہ ہوگا اور پودوں،سبزیوں، کی کیاریوں کی حفاظت بھی بھتر طریقے سے ممکن ہوگی۔

Wednesday, 4 December 2013

گھریلو پودوں کے لئے کھاد اپنے گھر پر تیار کیجیئے,


اکثر دوستوں کو شکوہ ہے کہ جب پودے نرسری سے خریدیں تو بڑے لش پش گرین اور خوبصورت ہوتے ہیں مگر گھرآ کر چند ہی دنوں میں اپنا رنگ و روپ کھونا شروع کر دیتے ہیں۔اور صدیوں پرانے معلوم ہوتے ہیں، نرسریوں  میں تو انہیں ترو تازہ رکھنے کے لئے مختلف قسم کی کھادوں اور کیمیکلز کا استعمال کیا  جاتا ہے مگر آپ گھر پر بھی بآ سانی قدرتی کھا د تیار کرکے اپنے پودوں کی بڑھوتی اور خوبصورتی میں اضافہ کر سکتے ہیں کیونکہ پانی کے ساتھ ساتھ چند اور اجزاء بھی ان کی صحت کے لئے ضروری ہیں جو آپ باآسانی گھر پر بھی تیار کرسکتے ہیں۔ گھر میں روزانہ انواع قسم کو کوڑا کرکٹ جمع ہوتا ہے.
جسے ضائع کرنا ایک بڑا مسلہ ہے مگر آپ اس کے ایک بڑے حصہ کو قابل استعمال لا سکتے ہیں۔ سبزیوں اور پھلوں کے چھلکے،انڈوں کے خالی خول ، گلی سڑی سبزیاں اور پھل،چائے کی استعمال شدہ پتی، بچے کھچے کھانے ،درختوں کے پتے ، کھاس پھونس،مرغیوں  اور پرندوں کی بیٹ اور گوبر وغیرہ ہر گھر میں دستیاب ہیں ۔ اگر گھر میں جگہ ہے تو لان کے کونے میں ایک گڑھا کھود کر پتّوں اور سبزیوں کے چھلکوں کو جمع کرتے جائیں۔ گڑھا جب پتّوں سے بھر جائے تو اس پر مٹی کی کم از کم چھ انچ موٹی تہہ لگا دیں اور اوپر سے پانی ڈالیں تاکہ مٹی کی نمی قائم رہ سکے۔ زیادہ پانی نہ ڈالیں کیونکہ اس طرح سے کھاد خراب ہوجائے گی۔ تین سے چار مہینے میں یہ کھاد تیار ہوجائے گی۔ یہ جانچنے کے لیے کہ آیا کھاد تیار ہے کہ نہیں، درست طریقہ یہ ہے کہ آپ کھاد والے گڑھے کو کھود کر دیکھیں کہ ان چیزوں کی جن کے ذریعے کھاد بنائی جارہی ہے، رنگت تبدیل ہوئی ہے یا نہیں۔ ان کی بدبو ختم ہوئی ہے یا ابھی باقی ہے۔ یہ بھربھری ہوئی ہے یا نہیں۔ اگریہ تینوں علامات ان میں نظر آجائیں یعنی کہ ان چیزوں کی اصل مہک ختم ہوجائے، اصل رنگت تبدیل ہوجائے اور وہ بھربھری ہوجائے تو پھر سمجھیں کہ کھاد تیار ہے، ورنہ کچھ دن اور انتظار کریں۔ یہ کھاد پھلواری کے لیے بہت موزوں ہے کیونکہ اس میں اتنی تیزی نہیں ہوتی، اور یہ موسمی پھولوں کے لیے بہترین ہے۔

Thursday, 24 October 2013

کریلا اور گھیا کدو کے فواید

کریلا


*Momordica charantia*

کریلاجس کا حیاتیاتی نام: Momordica charantia) ہے
کریلا موسم گرما کی ایک اہم اور مقبول ترین سبزی ہے۔ کریلا اپنی طبعی خصوصیات کی بناءپر بہت افادیت کا حامل ہے۔ یہ مختلف بیماریوں مثلاً نظام انہظام کی خرابی، ملیریا، چکن پاکس، زیابیطس اور کینسر جیسی مہلک بیماریوں کے خلاف جسم میں قوت مدافعت بڑھاتا ہے۔ کریلا پنجاب کے قریباً تمام اضلاع میں کاشت کیا جاتا ہے۔ 2011-12کے دوران پنجاب میں کریلا 992ایکڑ رقبہ پر کاشت کیا گیا اور اس سے 117من فی ایکڑ کی اوسط پیداوار سے مجموعی طور پر تقریباً 44ملین ٹن پیداوار ریکارڈ کی گئی۔ معتدل آب و ہوا کریلے کی کاشت کے لیے موزوں ہے ۔ پنجاب میں اس کی کاشت عموماً فروری سے جولائی تک ہوتی رہتی ہے۔ اسکے بیج کے اگاو کیلئے 30-25 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پنجاب کے وسطی اور جنوبی اضلاع فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ، جھنگ، رحیم یار خان، بہاولپور، بہاولنگر، ملتان، اور وہاڑی سبز کریلے کیلئے موزوں ہیں۔ جبکہ پنجاب کے شمالی اضلاع شیخوپورہ، لاہور، گوجرانوالہ، گجرات، اوکاڑہ اور حافظ آباد سبز کریلے اور بیج پیداکرنے کیلئے موزوں ہیں۔کریلے کی کاشت کیلئے زرخیز میرا زمین جس کی تیزابی خا صیت 7یا اس سے کم ہو اور جس میں پانی کا نکاس اچھا ہوبہترین ہے۔ زمین میں نامیاتی مادہ کی مقدار میں مناسب اضافہ کیلئے فصل کاشت کرنے سے کم از کم ایک ماہ قبل10تا 12 ٹن فی ایکڑ کے حساب سے گوبر کی گلی سڑی کھاد ڈال کر مٹی پلٹنے والا ہل چلائیں تاکہ زمین زیادہ گہرائی تک نرم جا سکے اور اگر پہلے سے کوئی فصل کاشت کی گئی ہو تو اُسکے مڈھ جڑوں سے اُکھڑ جائیں اور گل جانے پر نامیاتی مادے میں اضافہ کا سبب بن سکیں۔ کھیت کو ہموار کرکے کیاریوں میں تقسیم کر لیں اور راونی کردیں۔ وتر آنے پر دو یا تین بار سہاگہ چلا کر زمین کو اچھی طرح نرم اور بُھر بُھرا کر لیں۔ داب کے طریقے سے جڑی بوٹیوں کو تلف کرنے کیلئے چند دن کیلئے چھوڑ دیں۔”فیصل آباد لانگ“ محکمہ کی سفارش کردہ قسم ہے اور اسی کو ترجیح دینی چاہیے۔ اس قسم کے پودوں کا رنگ ہلکا سبز ہوتا ہے اور یہ قسم جلد پک کر تیار ہو جاتی ہے۔ کریلے کی کاشت وسط فروری سے اپریل تک کی جاتی ہے اور یہ مئی سے ستمبر تک پھل دیتی ہے۔پچھیتی فصل جون ، جولائی میں کاشت کی جاتی ہے اور اس فصل کا پھل عموماً اگست سے نومبر تک حاصل ہوتا ہے۔بیج کی شرح کا دارومدار قسم کے اگاوپر ہوتا ہے۔اچھی روئیدگی والا 2.0 تا2.5 کلوگرام بیج فی ایکڑ کافی ہوتا ہے۔ اگر بیج کی روئیدگی اتنی خاطر خواہ نہ ہو تو پھر 4.5-3.5 کلوگرام فی ایکڑ شرح بیج مناسب ہوتی ہے۔کریلے کی بوائی کے وقت 3بوری سنگل سپر فاسفیٹ ، ایک بوری امونیم نائٹریٹ اور ایک بوری پوٹاش فی ایکڑ ڈالیں۔ پھُول آنے پر آدھی بوری یوریا فی ایکڑ استعمال کریں۔ بعدازاں ہرتین چنائیوںکے بعد آدھی بوری یوریا فی ایکڑ ڈالتے رہیں۔تیار شدہ زمین پر 2.5میٹر پر لگے ہوئے نشانوں کے دونوں طرف مندرجہ بالا تناسب سے کھاد بکھیر دیں اور بعد میں پٹڑیاں بنائیں۔ پٹڑیوں کی نالیاں½ میٹر چوڑی رکھیں۔پٹریوں کے دونوں طرف کناروں پر تقریباً 45سینٹی میٹر کے فاصلے پر دو سے تین بیج 3سینٹی میٹر گہرے بوئیں اور کھیت کی آبپاشی کر دیں۔ بیج کو کاشت سے پہلے پھپھوندکش دوائی بحساب 3-2گرام فی کلوگرام بیج لگائیں۔پہلی آبپاشی کاشت کے فوراً بعد کریں اس کے بعد ہفتہ وار آبپاشی کرتے رہیں۔ جب موسم گرم ہو جائے تو آبپاشی چار دن کے وقفہ سے کریں یا پھر ضرورت کے مطابق کریں۔ چونکہ کریلے کی فصل موسم گرما کی فصل ہے اس لئے اس کی آبپاشی کے سلسلہ میں غفلت نہیں برتنی چاہیے جتنی زمین ٹھنڈی رہے گی اتنے ہی پھول زیادہ آئیں گے اور پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ تجربات سے پتہ چلا ہے کہ اگر بیج 12گھنٹے پانی میں بھگو کر کاشت کیا جائے تو دوسری آبپاشی پرہی سو فیصد اگاوہو جاتا ہے۔جب فصل اُگ جائے اور تین پتے نکال لے تو چھدرائی کرکے ہر جگہ صحت مند پودا چھوڑ کر فالتو پودے نکال دیں۔ جڑی بوٹیوں کی تلفی کے لئے گوڈی کریں۔ پودوں کو مٹی بھی چڑھا دیں۔فصل کو جڑی بوٹیوں سے صاف رکھنے کیلئے جب بھی ضرورت ہو گوڈی ضرور کرلیں ورنہ پیداوار متاثر ہو گی۔

گھیا کدو
گھیا کدو موسم گرما کی ایک اہم اور انتہائی مفید سبزی ہے۔ پاکستان میں وسیع رقبہ پر کاشت کیا جاتا ہے۔ پنجاب کے مختلف اضلاع میں کاشت کیا جاتا ہے ۔پنجاب میں 2011-12کے دوران گھیا کدو 5504ایکڑ رقبہ پر کاشت کیا گیاع جبکہ پیداوار 27842ملین ٹن ریکارڈ کی گئی۔ گھیا کدو کی اوسط پیداوار تقریباً 136ملین ٹن فی ایکڑ ہے۔ غذائی اعتبار سے گھیا کدو میں نشاستہ، چکنائی، کیلشیم، آئرن، فاسفورس اور حیاتین کے اجزاءپائے جاتے ہیں۔ گھیا کدو کی تاثیر ٹھنڈی ہوتی ہے اور یہ شوگر، بلڈپریشر، دل، جگر، پھیپھڑوں، کھانسی اور دمہ کے امراض کو کنٹرول کرنے میں بہت مفید ہے۔ میدانی علاقوں میں عام طور پر گھیا کدو کی تےن فصلےں کاشت کی جاتی ہےں۔ پہلی فصل فروری/مارچ ، دوسری جولا ئی/ اگست میں جبکہ تےسری فصل اکتوبر کے آ خر ےا نومبر کے شروع مےں کاشت کی جاتی ہے۔ اکتوبر نومبر میں کاشت ہونے والی فصل کو کہر کے اثر سے محفو ظ کرنے کے لیے سرکنڈے وغےرہ کے چھپر استعمال کیے جاتے ہےں۔ اس کے علاوہ پہا ڑوں پر اس کی کاشت اپرےل اور مئی مےں کی جاتی ہے۔اسکی عام طور پر دو اقسام کاشت کی جاتی ہیں۔ ایک قسم گول اور دوسری لمبی ہوتی ہے جسے لوکی بھی کہتے ہےںجو زیادہ ترپہاڑی علاقوں میں کاشت کی جاتی ہے۔ ترقی دادہ اقسام مےں فےصل آباد گول زےادہ پےداوار دےنے والی قسم ہے۔اچھی روئیدگی والا دو سے اڑھائی کلوگرام بیج ایک ایکڑکے لیے کافی ہوتا ہے۔زرخیز میرا زمین جس میں نامیاتی مادہ وافر مقدار میں موجود ہو اور پانی دیر تک جذب رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہو موزوں ہے۔ تھور اور سےم زدہ زمےنو ں مےں اسے کاشت نہےں کرنا چا ہئے۔بوائی سے ایک ماہ پہلے 10سے15ٹن گوبر کی گلی سڑی کھاد ڈال کر زمےن مےں اچھی طرح ملا دیں اوربعدمیں کچی راونی کردیں وتر آنے پر زمین میں ہل اورسہاگہ چلائیں۔ اس طرح کھیت میں موجود جڑی بوٹیوں کے بیج اُگ آئیں گے جو کاشت کے وقت زمین کی تیاری کے دوران آسانی سے تلف کیے جاسکتے ہیں۔ بوائی کے وقت تین سے چاربار ہل اور سہاگہ چلائیں تاکہ زمین نرم اور بھربھری ہو جائے۔ زمین کا ہموار ہونا بہت ضروری ہے۔ زمین کی تیاری کے بعد کھیت میں 3 سے4میٹر کے فاصلے پر ڈوری سے نشان لگائیں اور ان نشانوں کے دونوں اطراف چار بوری سنگل سپر فاسفیٹ ، ایک بوری امونیم سلفیٹ اور ایک بوری پوٹاش ےا ڈیڑھ بوری ڈی اے پی اور ایک بوری پوٹاش فی ایکڑ ملا کر ڈال دیں۔ بعد ازاں نشانوں سے مٹی اٹھا کر پٹڑیاں بنائیں ۔ اس بات کا خاص طور پر خیال کریں کہ پٹڑیوں کے درمیان والی نالی 40 سے50 سینٹی میٹر چوڑی اور 20 سے 25 سینٹی میٹر گہری ہو۔ اس طرح زمین کاشت کیلئے تیار ہو جاتی ہے۔پٹڑی کے دونوںکناروں پر50-40سینٹی میٹر کے فاصلہ پر دو دو بیج مناسب گہرائی پر بذریعہ چوکا لگائیں۔ اگر کاشت سے 10-8 گھنٹے قبل بیج کو پانی میں بھگو دیں تو اسکا اگاوبہت اچھا ہو جاتا ہے۔ پہلا پانی کاشت کے فوراً بعد لگا دیا جائے اور خیال رکھیں کہ پانی بیج کی سطح سے اوپر نہ جائے وگرنہ کرنڈ کی وجہ سے بیج کا اُگا ومتاثر ہوگا۔ اگر آبپاشی شام کے وقت ہو تو اس کا بہت فائدہ ہوتا ہے اس کے بعد ایک ہفتہ کے وقفہ سے آبپاشی کرتے رہیں۔ بارش ہونے کی صورت میں آبپاشی کا دورانیہ بڑھایا جا سکتا ہے۔ اُگنے کے بعد جب فصل تین چا ر پتے نکال لے تو ہر جگہ ایک صحت مند پودا چھوڑ کر باقی پودے نکال دیں۔فصل کو جڑی بوٹیوں سے پاک رکھنے کیلئے مختلف اوقات میں تین چار مرتبہ گوڈی کریں۔ ہر تیسری یا چوتھی چنائی کے بعدایک بوری امونیم نائٹریٹ یا آدھی بوری یوریا نالیوں میں بکھیر کر گوڈی کرنے اور مٹی پودوں کی جڑوں کے ساتھ لگاکر آبپاشی کرنے سے پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہو جاتاہے۔

 موسم گرما کی سبزیاں کاشت کرکے کاشتکار معاشی استحکام کےحصول کو ممکن بنا سکتے ہیں کیونکہ سبزیوں کی قیمت دیگر فصلات کی نسبت زیادہ ملتی ہے اور جلد پیداوار حاصل ہونے سے فصل کے کاشتی دیکھ بھال کے اخراجات بھی ساتھ ساتھ پورے کئے جا سکتے ہیں۔
اس مضمون کی تیاری میں تحقیقاتی کتب کی مدد لی گئی تاکہ عوام الناس کو فائدہ حاصل ہو۔

Friday, 11 October 2013

ٹماٹر آپ کامعالج بھی ہے


ٹماٹر ویسے تو ایک عام اور معصوم سبزی میں استمال ھونے والا پھل ھے۔جی ہاں ٹماٹر ایک پھل جو روز ہم کسی نہ کسی طریقہ سے کھاتے ہیں۔آج ٹماٹر کی خصوصیات کا زکر کرتے ہیں۔جن سے آکسرھم واقف نہیں، یونیورسٹی آف کیلوفرنیا کی تحقیق کے مطابق ٹماٹر کینسر جیسے موزی مرض میں نہایت مفید ھے۔ٹماٹر انٹی اکسیڈ ینٹ بھی ھے اگراللہ نہ کرے کسی کا اکسیڈ ینٹ ھو جائے تو اسے ٹماٹر کا جوس کا دیں تو مریض بہت جلد صحت یاب ھوجائے گا۔اس لیئے کہ ان میں وٹامن اے اور وٹامن سی کی بہت اچھی مقدار پائی جاتی ھے۔ خون میں موجود فریریڈیکلزکونیوٹرلائزکرتے ہیں،بصورت دیگریہ خون میں موجود فریریڈیکلزخلیات کونقصان پہنچاسکتے ہیں،
*ٹماٹرکو کچابھی کھانا چاہیےاس لئے کہ اس کو پکانےسے اس میں موجود وٹامن سی کی مقدار ضایع ہوسکتی ہے۔
*ٹماٹر میں ایک خاص قسم کا قدرتی معدن کرومیم بھی پایا جاتاہےجوزیابیطس کےمرض میں مبتلا مریضوں میں بلڈشوگر کو قابو میں رکھتا ہے۔
*ٹماٹرسیگریٹ استمال کرنےوالوں کیلئے بھی بے حد
مفید ہے،
*ٹماٹرمیں موجود وٹامن اےنظر کودرست رکھنے میں بھی معاون ومددگارہے،
*ٹماٹرمیں موجود وٹامن بی بلڈپریشراورکولیسٹرول کی سطح کو کمتر رکھنے میں نہیایت مفید ہے اس لیے کی کہ فالج،دل کے دورے اور دیگر خطرناک مسائل سے بچاکر رکھتا ہے،
*ٹماٹرآپ کی جلد کی حفاظت بھی کرسکتا ہے،اس میں موجود لائیسوپین نامی مادہ جلد کی بہترین حفاظت کرتا ہے۔اسکے لیے آپ یہ بھی کرسکتے ہیں کہ دس بارہ ٹماٹروں کا چھلکے اتار کر چہرے پر بچھادیں یہ عمل آپ دس تا پندرہ منٹ تک جاری رکھے اس کے بعد چہرے کو تازہ پانی سے دھو لیں آپ دیکھ سکتے ہیں اس سے آپ کا چہرہ ترو تازہ اورنکھر جائے گا،
*ٹماٹر بالوں میں سفیدی روکنے میں اور دانتوںاور ہڈیوں کے لیے بھی مفید ہے،
*ٹماٹر اگر کچا اوربیجوں کےبغیر کھایا جائے تو اس سے پتے اور گردے کی پتری کے خطرے کو کم کرتا ہے،
*ٹماٹروں پر متعددتحقیق کے بعد یہ بھی بات سامنے ائی ہے کہ آئسوپین مردوں غدودوں کے کینسر کے خطرے کو کم کرتا ہے،


Thursday, 10 October 2013

بےکار کو کارآمد بنائیں

گھر میں بہت سی بےکار اشیاء ھوتی ہیں جسے آپ تھوڑی توجہ دیکر قابل استمال بنا سکتےہیں۔جس پلاسٹک کی بوتلیں ۔ٹوٹے ہوئے گھی کے ڈ بے اور بہت سی اس سے ملتی جلتی ۔آپنے یہ دیکھنا ھے کہ گھر کا کون سا حصہ باغبانی کیلئے منتخب کیا جاسکتا ھے۔ 

x

Friday, 4 October 2013

سستا مواد کا استعمال کرتے ہوئےگھریلو باغبانی

Indoor Garden Using Inexpensive Materials
سستا مواد کا استعمال کرتے ہوئےگھریلو باغبانی