گھریلو باغبانی
* گھریلو باغبانی سے آرائش و صحت عامہ کے بارے میں اردو کا بلاگ *
Saturday, 24 May 2014
Wednesday, 14 May 2014
شھد اللہ کا انعام
اس حقیقت
سے تقریبا ہر شخص واقف ہے کہ شہد انسانی جسم کی ایک اہم اوربنیادی ضرورت ہے لیکن شہد پیدا کرنے والی مکھی کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ اس بات سے تو سبھی واقف ہیں کہ شہد کی مکھیاں پھولوں کا رس ( Nectar)
سے تقریبا ہر شخص واقف ہے کہ شہد انسانی جسم کی ایک اہم اوربنیادی ضرورت ہے لیکن شہد پیدا کرنے والی مکھی کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ اس بات سے تو سبھی واقف ہیں کہ شہد کی مکھیاں پھولوں کا رس ( Nectar)
اورزرگل((Pollen اکٹھاکر کے شہد بناتی ہے لیکن چونکہ سردیوں میں پھول نہیں ہوتے اس لیے وہ یہ فریضہ گرمیوں کے موسم میں سرانجام دیتی ہیں۔شہد محض پھولوں کا رس یا زرگل ہی نہیں ہوتا بلکہ شہد کی مکھی پھولوں کے رس کے علاوہ اس میں قدرت کی عطا کردہ خصوصی رطوبتیں شامل کرکے اسے تخلیق کے مرحلوں سے گذارتی ہیں۔ یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ شہد کی وہ مقدار جو مکھیاں گرمیوں کے موسم میں آنے والے موسمِ سرما کے لیے جمع کرتی ہیں وہ ان کی اپنی ضرورت سے بہت زیادہ ہو تاہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایسا کیوں کرتی ہیں؟ اپنی ضرورت سے زیادہ شہد کی پیداوار وقت اور توانائی کا ضیاع نہیں ہے؟ اس سوال کا جواب قرآنِ پاک میں سورہ جاثیہ کی آیت نمبر 13میں پوشیدہ ہے۔ترجمہ: اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اپنے (حکم) سے تمہارے کام میں لگا دیا ہے۔ جو لوگ غور کرتے ہیں ان کے لیے اس میں (قدرتِ خدا) کی نشانیاں ہیں۔
Honey Bee Collecting Pollen
اللہ کے اس حکم کے عین مطابق شہد کی مکھیاں نہ صرف اپنے لیے شہد بناتی ہیں بلکہ بنی نوع انسان کی خدمت کا فریضہ بھی سرانجام دیتی ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح جیسے مرغی تقریبا ایک انڈہ روزانہ دیتی ہے حالانکہ اسے اتنے انڈوں کی ضرورت نہیں ہوتی یا گائے اتنا دودھ دیتی ہے جو اس کے بچھڑے کی ضرورت سے بہت زیادہ ہو تا ہے۔شہد کی مکھیاں چھتے میں رہتی ہیں اور حیرت زدہ کر دینے والے ایک نظام کے تحت شہد تخلیق کرتی ہیں۔ بہت زیادہ تفصیل میں جائے بغیر آئیے شہد کے معاشرتی نظام پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔یہ بات ذہن میں رکھئے کہ شہد کی مکھی کو شہد کی تخلیق کے لیے بہت سے مراحل سے گذرنا پڑتا ہے اور وہ اس عمل کو انتہائی منظم اور خوبصورت طریقے سے ترتیب دیتی ہے۔
چھتے میں ہوا اور نمی کا نظام: شہد کا چھتہ جہاں شہد کی تخلیق کا عمل مکمل ہوتا ہے ایک دل موہ لینے والے نظام کا حامل ہوتاہے۔ چھتے کی اندرونی فضا میں نمی کی مقدار میں اپنی مقررہ حد سے کمی بیشی واقع ہو جائے تو شہد کی غذائیت اور حفاظتی اجزا کے ضائع ہونے کا پورا امکان موجود ہوتا ہے۔ اسی طرح شہد کے چھتے کا درجہ حرارت پورے دس ماہ تک32درجے سنٹی گریڈ پر قائم رہنا ضروری ہے۔چھتے میں دونوں چیزوں کا تناسب مقررہ حدود میں قائم رکھنے کے لیے مکھیوں کا ایک پورا گروہ اپنے ذمہ داریاں سنبھالتا ہے۔
گرمیوں کی کسی دوپہر میں شہد کے چھتے کے پاس کھڑے ہو کر اس امر کا بخوبی مشاہدہ کیاجا سکتا ہے کہ مکھیاں کس طرح اپنے پروں سے چھتے کو ہوا پہنچانے کا انتظام کر تی ہیں۔چھتے کے داخلی دروازے پر مکھیوں کا پورا ایک گروہ ایک دوسرے سے چمٹ کر بیٹھ جاتا ہے اور اپنے پروں کی حرکت سے چھتے کو ہوا بہم پہنچاتا ہے۔ مکھیاں پروں کی حرکت سے ہوا کو اندر دھکیل دیتی ہیں۔ مکھیوں کے اس گروہ کے علاوہ کچھ اور مکھیاں مختلف جگہوں پر بیٹھ کر اندر آنے والی ہوا کو اپنے پروں کے ذریعے چھتے کے کونے کھدروں میں پہنچانے کا بندوبست کرتی ہیں۔ ہوا کا یہی نظام چھتے کو دھوئیں اور فضائی آودگی سے بچانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
Propolis
شہد کا معیار: شہد کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے مکھیوں کی کوششیں صرف نمی اور درجہ حرارت تک ہی محدود نہیں بلکہ شہد کو بیرونی منفی اثرات سے بچانے کے لیے ایک مضبوط اور موثر نظام ان کے پاس موجود ہوتا ہے۔ اس خاص نظام کا مقصد ایسے تمام عوامل سے چھتے کی حفاظت کرنا ہے جو جراثیم پیدا کرنے کا باعث ہوسکتے ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ بیرونی منفی اثرات کو چھتے تک پہنچنے سے روکنا اس نظام کا بنیادی مقصد ہے۔ اس مقصد کے لیے دو بڑی مکھیاں چھتے کے داخلی دروازے پر ہر وقت موجود ہوتی ہیں اور ہر آنے والی چیز کو سنسر کرتی ہیں اور کوئی بھی جراثیم آلود چیز چھتے میں گھسنے نہیں دیتیں لیکن اتنی احتیاط کے باوجود اگر کوئی نقصان دہ چیز چھتے میں داخل ہوجائے تو اسے وہاں سے نکالنے کے لیے تمام مکھیاں مل کر اس کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیتی ہیں۔اگر کوئی ایسی شے چھتے میں داخل ہوجائے جسے مکھیاں باہر نکالنے میں ناکام ہوجائیں تو پھر ایک دوسرے مشینی نظام کو حرکت میں لایا جاتا ہے ۔ مکھیاں اس چیز کو ’’وارنش ‘‘ کر دیتی ہیں۔ یہ وارنش وہ اپنے جسم سے خارج ہونے والے مادے Propolis کو چنار، انناس اور کیکر سے حاصل کردہ گوندکے ساتھ ملا کر تیار کرتی ہیں۔چھتے میں ہونے والی توڑپھوڑ اور دوسرے کئی کاموں کے لیے بھی یہی وارنش استعمال کی جاتی ہے۔چھتے میں کسی وجہ سے اگر دراڑیں پڑ جائیں تو انہیں اس وارنش سے پر کر دیا جاتا ہے اور ہوا لگتے ہی یہ وارنش خشک ہو کر بیرونی اثرات سے مکمل طور پر محفوظ ہو جاتی ہے۔آپ کو یہ پڑھ کر حیرت ہوگی کہ باہر سے چھتے میں داخل ہونے والی کوئی سخت
شے جسے مکھیاں ہٹا نہ سکتی ہوں، اس پر جب یہ وارنش چھڑک دی جاتی ہے تو وہ چیز کسی قسم کے جراثیم اور برے اثرات پیدا کرنے کے قابل نہیں رہتی اور چھتہ اس سے مکمل طور پر محفوظ
ہوجاتا ہے۔
ذرا سوچئے کہ مکھیوں کو یہ علم کس نے دیا کہ چھتے میں باہر سے داخل ہونے والے مردہ اجسام جراثیم پیدا کرنے کا باعث ہو سکتے ہے اور ان کے منہ سے خارج ہونے والا مادہ کیا کام کرسکتا ہے ؟ساتھ ہی یہ کہ مکھیا ں ایسا مادہ کیسے بنالیتی ہیں جس کو اگر انسان بنانا چاہے تو اسے کیمسٹری کا خاطرخواہ علم حاصل کرنا پڑے گا اور پھر اسے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ ساتھ اسے ایک پوری لیبارٹری کی ضرورت ہوگی۔اس سوال کے جواب کی نشاندھی سورہ جاثیہ کی آیت نمبر 4میں کردی گئی ہے۔
ترجمہ:اور تمہاری پیدائش میں بھی اور جانوروں میں بھی جن کو وہ پھیلاتا ہے،یقین کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ مکھی کو خود ان صلاحیتوں کا علم ہے اور نہ ہی وہ یہ بات جانتی ہے کہ اس کے وجود میں کوئی لیبارٹری موجود ہے۔ وہ تو 1-2سنٹی میٹر لمبا کیڑا ہے۔ وہ تو وہی کچھ کرتی ہے جس کا اسے اس کے خالق نے حکم دیا ہے۔
کم سے کم مادے کا استعمال کر کے زیادہ سے زیادہ شہد ذخیرہ کرنے کی صلاحیت: شہد کی مکھیاں جو چھتہ بناتی ہیں وہ نہ صرف اس قابل ہوتا ہے کہ تیس ہزار مکھیاں اس میں رہ سکتی ہیں بلکہ آزادی سے کام بھی کرسکتی ہیں۔شہد کا چھتہ موم کی دیواروں سے بنائی ہوئی کنگھیوں کا ایک مجموعہ ہوتا ہے جس میں ہزارہا خانے موجود ہوتے ہیں۔یہ ایک ایسا ’’حیرت کدہ ‘‘ ہے جس میں بنائے جانے والے ہزاروں خانے ناقابلِ یقین حد تک ایک دوسرے کے برابر ہوتے ہیں۔ان خانوں کو مکھیاں شہد کو ذخیرہ کرنے، بچوں کی پیدائش اور افزائش کے لیے استعمال کرتی ہیں۔فنِ تعمیر کا یہ معجزہ ہزاروں مکھیوں کی مشترکہ کاوشوں سے تکمیل کے مراحل سے گذرتا ہے۔
ایک سو ملین سال پہلے چٹانوں کے اندر سے ملنے والے شہد کے نشانات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ شہد کی مکھیاں لاکھوں سال سے چھتہ بناتے ہوئے چھ کونوں والا خانہ بناتی ہیں۔یہ امر باعثِ حیرت ہے کہ مکھیاں چھتہ بناتے ہوئے چھ کو نوں والا خانہ ہی کیوں بناتی ہیںآٹھ کونوں والا یاپانچ کونوں والا خانہ کیوں نہیں بناتیں۔ریاضی دان اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ چھ کونوں والا خانہ کسی جگہ کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے جیومیٹری کی موزوں ترین شکل ہے۔اگر شہد کے چھتے کے خانے کسی اور شکل میں بنائے جاتے تو بہت سی جگہ خالی رہ جاتی، شہد کا کم ذخیرہ ہوتا اور مکھیوں کی بہت کم تعداد اس سے فائدہ اٹھاسکتی۔جہاں تک خانوں کی گہرائی کا تعلق ہے تو تین یا چار کونوں والے خانے میں بھی اتنا شہد ذخیرہ کیا جاسکتا ہے جتنا چھ کونوں والے میں خانے میں۔ لیکن جیومیٹری کی تمام شکلوں میں چھ کونوں والا خانہ سب سے کم جگہ گھیرتا ہے اور ان خانوں کی مدد سے تعمیر کیے جانے والے چھتے میں دوسری تمام شکلوں کی نسبت کم موم استعمال ہوتاہے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ مکھیاں چھتے میں چھ کونوں والا والے ہزاروں خانوں کی مدد سے کم سے کم جگہ استعمال کرتی اورزیادہ سے زیادہ شہد ذخیرہ کرتی ہیں۔ انسان اگر اسی طرح کے چھ کونوں والے ہزاروں خانوں کی مدد سے کوئی چھتہ تعمیر کرنا چاہے تو پہلے اسے جیومیٹری کے بہت سے اصولوں پر عبور حاصل کرناہوگا اور بہت سی جمع تفریق کر کے وہ اس اصول تک پہنچے گا جس اصول پر مکھیاں لاکھوں سال پہلے سے کام کر رہی ہیں۔شہد کی مکھی نے جیومیٹری کا کوئی کورس نہیں کیاہے۔ اس چھوٹے سے جانور کے چھوٹے سے دماغ میں ربِ کائنات نے جو اصول مرتب کر دیا ہے یہ لاکھوں سال سے اس پر عمل پیرا ہے۔
یاد رہے کہ چھ کونوں والا خانہ کئی لحاظ سے قابلِ عمل ہے۔ دیواروں کے ایک بہترین اشتراک سے یہ خانے ایک دوسرے میں آسانی سے فٹ ہو جاتے ہیں۔ شہد کے چھتے میں بنائے جانے والے خانوں کی دیواریں بہت پتلی ہوتی ہیں لیکن ان میں اتنی مضبوطی ضرور ہوتی ہے کہ اگر اصل مقدار سے کئی گنا زیادہ شہد بھی ان میں بھر دیا جائے تو ٹوٹتی نہیں ہیں۔چھتے کی سلائس نما کنگھیاں بناتے ہوئے مکھیاں ایک اور حیران کن کام کرتی ہیں کہ وہ دونوں طرف کے خانوں کو زمین کے متوازی رکھنے کی بجائے انہیں 13ڈگری اوپر کی طرف اٹھا دیتی ہیں اور اس طرح شہد لیک ہو کر زمین پر گرنے سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
مکھیاں درختوں پر جاکر اپنی ٹانگوں پر بنے ہوئے کنڈوں کی مدد سے موم حاصل کرتی ہیں اور منہ میں ڈال کر چباتی ہیں۔ جب وہ مطلوبہ حد تک نرم ہوجاتا ہے تو اسے چھتے کے بہت پتلے خانے بنانے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔مکھی کے پیٹ میں ایک چھوٹی سی تھیلی ہوتی ہے جس سے ایک شفاف مادہ خارج ہوتا ہے جو خانوں کی پتلی دیواروں کو مضبوط کرنے کے لیے مدد دیتا ہے۔مکھیاں جب موم کو نرم کرنے کا کام کررہی ہوتی ہیں اس وقت انہیں ایک مخصوص درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔اس مقصد کے لیے بہت سی کارکن مکھیاں دائرے کی شکل میں گچھوں کی طرح ایک دوسرے کو پکڑکر لٹک جاتی ہیں۔اس طرح موم بنانے کے لیے وہ مطلوبہ درجہ حرارت مہیا کرتی ہیں۔
ایک اور عمل جو دلچسپی کا باعث ہے وہ یہ ہے کہ مکھیاں سلائس نما کنگھیوں کی تعمیر کا کام دو یا تین قطاروں میں چھتے کے اوپرسے نیچے کی طرف بیک وقت شروع کرتی ہیں جبکہ کنگھیوں کا پھیلاؤ باہر کی طرف ہوتا ہے۔پہلے ان کنگھیوں کے پیندے جوڑے جاتے ہیں۔ان کنگھیوں کی تعمیر میں حیران کن حد تک موافقت اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ حتی کہ یہ سمجھنا ناممکن
ہوتا ہے کہ تین مختلف ٹکڑے تعمیر ہورہے ہیں۔ آپ تینوں ٹکڑوں کو ہزاروں زاویوں سے بھی دیکھیں تو آپ کومحسوس ہوگا کہ تین مختلف چیزیں نہیں بلکہ ایک ہی چیز تعمیر ہورہی ہے۔
ایسی عمدہ تعمیر کے لیے مکھیوں کو دونوں یا تینوں ٹکڑوں کے ایک ایک خانے کا پہلے سے حساب لگانا پڑتا ہوگا۔کئی ہزار مکھیاں ایسی شاندار اور جادوئی تعمیر کا حساب پہلے سے کیسے لگا لیتی ہیں یہ امر سائنسدانوں کے لیے اب تک حیرت کا باعث ہے۔
تعمیر میں جس قدر درستگی کا اظہار مکھیاں کرتی ہیں اس کا انتظام اگر انسان کو کرنا پڑے تو اس کے لیے یقیناًایک مشکل عمل ہوگا۔ یہ اتنا مشکل اور تفصیل طلب کام ہے جو کسی ’’پوشیدہ قوت‘‘ کی رہنمائی کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔مکھیاں کیسے کر لیتی ہیں ؟ اس سوال کا جواب تو روحانی علم کا کوئی ماہر ہی دے سکتاہے کہ وہ کونسی پوشیدہ قوت ہے جو کئی ہزار مکھیوں کو ایک ہی وقت میں ایک ہی جیسے مجموعی کام کے لیے ہدایات دیتی اور ان کی رہنمائی کرتی ہے۔ہر مکھی اگر اپنی اپنی عقل کے مطابق کام کر رہی ہوتی تو اس معجزاتی تخلیق کو اس قدر حیران کن طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچانا شاید ممکن نہ ہوتا۔اس پوشیدہ قوت کو محض ایک نام دے کر اس عظیم کام کا سزاوار ٹھہرایا جائے تو یہ ایک ناانصافی ہوگی۔کیونکہ ان ناموں کے بارے میں اللہ کریم نے سورہ یوسف کی آیت نمبر40میں فرمایا ہے کہ:جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہووہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں۔ خدا نے ان کی کوئی سند نازل نہیں کی۔(سن رکھوکہ) خدا کے سوا کسی کی حکومت نہیں۔ ربِ کائنات اگر مکھیوں کے اس مربوط نظام کی رہنمائی نہ کرتا تو یہ سب کچھ ممکن نہ تھا۔ سورہ نحل میں اللہ نے کھل کر اپنے خالق ہونے کا اظہار کیاہے۔ ترجمہ: اور تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھیوں کو ارشاد فرمایا کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور (اونچی اونچی) چھتریوں میں جو لوگ بناتے ہیں، گھر بنا اور ہر قسم کے میوے کھا اور اپنے پروردگار کے صاف رستوں پر چلی جا۔ اس کے پیٹ سے پینے کی چیزیں نکلتی ہیں۔ جس کے مختلف رنگ ہوتے ہیں۔ اس میں لوگوں (کے کئی امراض) کی شفا ہے۔بے شک سوچنے والوں کے لیے اس میں بھی نشانی ہے۔ (سورہ نحل 68:69)اس لیے مکھیاں تو وہی کچھ کرتی ہیں جس کے لیے ان کے مالک نے حکم دیا ہے۔
مکھیاں رس کی تلاش میں اپنی سمت کیسے متعین کرتی ہیں؟ شہد کی مکھیوں کو پھولوں کے رس کی تلاش میں لمبے لمبے سفر کرنا پڑتے ہیں اور بہت سے علاقوں کا سروے کرنا ہوتا ہے۔وہ شہد کے اجزاء اور پھولوں کا رس چھتے کے اردگرد 800میٹر تک کے علاقے میں تلاش کرتی ہیں۔ ایک مکھی جب پھول تلاش کر لیتی ہے تو وہ دوسری مکھیوں کو پھولوں کے محلِ وقوع کے بارے کیسے بتاتی ہے؟ یہ ایک اور دلچسپ حقیقت ہے۔
رقص کرتے ہوئے۔۔۔ ۔۔۔ ۔!! جی ہاں وہ پھولوں کو دیکھنے کے بعد رقص کرتی ہوئی چھتے کی طرف آتی ہے۔یہ رقص اس کے تاثرات کا ایک ایسا اظہار ہوتا ہے جسے وہ کئی بار دہراتی ہے۔اس رقص کے دوران وہ مسلسل 8کا ہندسہ بناتی ہے۔یوں سمجھ لیں کہ وہ 8کے ہندسے کے درمیانی حصے کی طرح اپنے جسم کے نچلے حصے کو تیزی سے حرکت دیتی ہے اور ٹیڑھے میڑھے زاویے بناتی ہے۔ان زاویوں کے ذریعے وہ سورج اور چھتے کے درمیان لائن کی وضاحت کرکے خوراک کی صحیح سمت کا تعین کردیتی ہے لیکن دوسری کارکن مکھیوں کے لیے خوراک کی صحیح سمت کا تعین ہی کافی نہیں ہے بلکہ انہیں یہ معلومات بھی درکار ہوتی ہیں کہ اس سمت میں انہیں خوراک کے لیے کتنا فاصلہ طے کرنا ہوگا۔یہ معلومات بھی وہ جسم کی حرکات ہی کے ذریعے بہم پہنچاتی ہے۔مثلا اگر اس نے 250میٹر فاصلے کا اظہار کرنا ہو تو وہ اپنے جسم کے نچلے حصے کو آدھے منٹ میں پانچ دفعہ حرکت دیتی ہے۔اس طرح دوسری مکھیوں کو خوراک کے محلِ وقوع، فاصلے اور دوسری تفصیلات کا بخوبی علم ہو جاتا ہے۔
یہاں ایک اور مسئلہ مکھیوں کو درپیش ہوسکتا ہے وہ یہ کہ پھولوں تک جانے اور رس لانے میں کافی وقت لگ جاتاہے۔جب کوئی مکھی رس لے کر واپس آتی ہے اور دوسری مکھیوں پر سمت کا اظہار کرتی ہے اس وقت تک سورج اپنی جگہ سے حرکت کرچکا ہوتاہے کیونکہ سورج ہر چار منٹ بعد ایک ڈگری سفر طے کر لیتا ہے۔اس طرح اگر مکھی کو پھولوں سے چھتے تک آتے ہوئے چار منٹ لگ جاتے ہیں تو لامحالہ سمت کے تعین میں ایک ڈگری کی غلطی ہوسکتی ہے لیکن آپ کو حیرانگی ہوگی کہ مکھیوں کو اس طرح کی کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی۔شہد کی مکھی کی آنکھیں سینکڑوں چھوٹے چھوٹے چھ کونوں والے عدسوں سے مل کر بنی ہوتی ہیں۔ ہر عدسہ خوردبین کی طرح نزدیک ترین جگہ کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دن کے کسی بھی حصے میں اڑتی ہوئی مکھی سورج کو دیکھ کر اپنی منزل کا پتا لگا لیتی ہے۔ سورج کی طرف سے آنے والی شعاؤں میں جونہی تبدیلی ہوتی ہے مکھی اس میں جمع تفریق کر کے اپنی سمت درست کر لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی منزل تک جانے میں کبھی غلطی نہیں کرتی۔
پھولوں کی نشاندھی کا طریقہ: جب کوئی مکھی کسی پھول سے رس چوس لیتی ہے تو وہ وہاں ایک خوشبودار مادہ چھوڑ دیتی ہے۔ بعد میںآنے والی مکھی اس خوشبو کو محسوس کرتے ہی سمجھ جاتی ہے کہ اس پھول میں رس نہیں ہے۔ اس طرح وہ وقت ضائع کیے بغیر دوسرے پھول کی طرف بڑھ جاتی ہے۔
شہد کی تخلیق کا معجزہ: شہد انسانی جسم کو قوت فراہم کرنے کا انتہائی اہم ذریعہ ہے جسے اللہ تعالی نے بنی نوع انسان کے لیے ایک چھوٹے سے کیڑے کے ذریعے تیار کروایا ہے۔ شہد
ایک ایسا مرکب ہے جس میں گلوکوز کی طرح کی چینی، فرکٹوز، میگنیشیم ، پوٹاشیم، کیلشیم، سوڈیم کلورین، گندھک، لوہا اور فاسفیٹ قسم کی معدنیات موجود ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس
Honey bee
میں وٹامن B2, ،سی،B6, B5, اور B3پائے جاتے ہیں۔ ان وٹامنز میں پھولوں کے رس اور ان سے حاصل کیے جانے والے زرگل Pollenکے معیار کے مطابق تبدیلی آتی رہتی ہے۔ان سب چیزوں کے ساتھ ساتھ تانبا، آیوڈین اور زنک کی کچھ مقدار بھی شہد کا حصہ ہوتی ہے اور کئی قسموں کے ہارمونز بھی اس میں موجود ہوتے ہیں۔
سورہ نحل آیت نمبر69 ترجمہ: ان کے پیٹوں میں سے مختلف رنگوں کا مشروب نکلتا ہے جس میں بنی نوع انسان کے لیے شفا ہے۔
سورہ یاسین آیت نمبر 72-73 ترجمہ:کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ جو چیزیں ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنائیں ان میں سے ہم نے چارپائے پیدا کر دیے اور یہ ان کے مالک ہیں اور ان کو ان کے قابو میں کر دیاتو کوئی تو ان کی سواری ہے اور کسی کو یہ کھاتے ہیں اور ان میں ان کے لیے (اور) فائدے کی اور پینے کی چیزیں ہیں۔ تو کیا یہ شکر نہیں کرتے؟
Apiculture
جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآنِ پاک میں فرمایا ہے کہ شہد میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔ 20-26ستمبر 1993 کو چین میں مکھیوں کی بڑے پیمانے پر افزائش کے بارے میں ہونے والی World Apiculture Conference میں شامل سائنسدانوں نے اس قرآنی حقیقت کی تصدیق کر دی ہے۔ کانفرنس کے دوران شہد سے حاصل شدہ اجزاء کے ذریعے علاج کو زیرِ بحث لایا گیا۔امریکی سائنسدانوں نے خصوصی طور پر کہا کہ شہد، شاہی جیلی ، زرگل (Pollen) اور’’وارنش‘‘ Proplis کئی بیماریوں کا علاج ہیں ۔ ایک رومی ڈاکٹر نے وضاحت کی کہ اس نے ایسے مریضوں کا علاج شہد سے کیا جو Contaract(آنکھ کی پتلی کا سکڑ جانا)کاشکار تھے تو 2094مریضوں میں سے 2002مریض مکمل طور پر صحتیاب ہوگئے۔ پولینڈ کے ڈاکٹروں نے بھی کانفرنس کو بتایا کہ مکھیوں کی بنائی ہوئی ’’وارنش‘‘ جلد کی بیماریوں، حمل کے دوران ہونے والی بیماریوں اور انسانی جسم کی دوسری بہت سی بے ترتیبیوں کا علاج ہے۔آجکل سائنسی لحاظ سے ترقی یافتہ ممالک میں اور شہد پر تحقیق کے لیے نئے دروازے کھل گئے ہیں۔ شہد کی کچھ دوسری خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:
زود ہضم ہے: شہد میں بہت زیادہ تیزابیت ہوتی ہے لیکن اس کے باوجوداس میں چینی کے اجزاء آسانی سے گلوکوز اور فرکٹوز میں تبدیل ہوجاتے ہیں اس طرح انتہائی حساس معدے میں بھی شہد جلدی ہضم ہو جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ گردوں اورآنتوں کے لیے ایک بہترین معاون اور مدد گار کا کردار ادا کرتا ہے۔
حراروں کی کم مقدار: شہد کی ایک دوسری خاصیت یہ ہے کہ اس کا اگر چینی کی اتنی ہی مقدار سے موازنہ کیا جائے تو یہ جسم کو چینی کے مقابلے میں 40%کم حرارے مہیا کرتا ہے اور اس کے برعکس چینی کی نسبت جسم کو بہت زیادہ قوت دیتا ہے اور وزن نہیں بڑھاتا۔
تیزی سے خون تک رسائی: شہد کو اگر تازہ پانی کے ساتھ ملاکر پیا جائے تو یہ سات منٹ کے اندر اندر دورانِ خون تک جا پہنچتا ہے۔ اس کے شوگر سے پاک ما لیکیولزدماغ کی کارکردگی کو بہتر بناتے ہیں ۔ انسانی دماغ، اس میں پائی جانے والی چینی کا سب سے بڑا صارف ہے۔
خون بنانے میں مدد دیتاہے: شہد خون بنانے کے لیے جسمانی توانائی کا ایک اہم حصہ فراہم کرتا ہے۔مزید یہ کہ خون صاف کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔دورانِ خون کے لیے اس کے اثرات انتہائی مثبت ہوتے ہیں۔ یہ انسانی وجود کی چھوٹی بڑی تمام رگوں کے مختلف مسائل کے خلاف بھی بڑا موثر کردار ادا کرتا ہے۔
جراثیم پیدا نہیں ہونے دیتا: شہد کی جراثیم کش خصوصیات کی وجہ سے اس کو’’رکاوٹ اثر‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔تجربات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ پانی میں حل کر کے شہد کے استعمال سے اس کی جراثیم کش صلاحیت دوگنی ہوجاتی ہے۔یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ مکھیاں اپنی نومولود بچوں کو حل شدہ شہد ہی دیتی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شہد کی اس خاصیت سے واقف ہیں۔
شاہی جیلی: شاہی جیلی شہد کا وہ جزو ہے جو کارکن مکھیاں چھتے کے اندر بناتی ہیں۔ یہ چینی، پروٹین، حراروں اور بہت سے وٹامن اس کے غذائی اجزاء ہیں۔ یہ بافتوں کی کمی اور جسمانی کمزوری کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
اس مضمون کی تیاری مختلف ویب سائٹس سے حاصل کردہ معلومات سے کی گئی۔
Thursday, 17 April 2014
انجیر۔۔۔۔۔۔ کے فوائد
انجیر۔۔۔۔۔۔"
انجیر کو جنت کا پھل بھی کہا جاتا ہے۔۔۔ یہ کمزور اور دبلے پتلے لوگوں کے لئے نعمت بیش بہا ہے۔۔۔ انجیر جسم کو فربہ اور سڈول بناتا ہے۔۔۔ چہرے کو سرخ و سفید رنگت عطا کرتا ہے۔۔۔ انجیر کا شمار عام اور مشہور پھلوں میں ہوتا ہے۔۔۔
انجیر کے اندر پروٹین۔۔۔ معدنی اجزائ۔۔۔ شکر ۔۔۔کیلشیم۔۔۔ فاسفورس۔۔۔ پائے جاتے ہیں۔
دونوں انجیر یعنی خشک۔۔۔ اور تر ۔۔۔ میں وٹامن " A " اور " C" کافی مقدار میں ہوتے ہیں۔۔۔ وٹامن" B" اور "D" قلیل مقدار میں ہوتے ہیں۔۔۔ ان اجزاء کے پیش نظر انجیر ایک مفید غذائی دوا کی حیثیت رکھتا ہے۔۔۔ اس لئے عام کمزوری۔۔۔ اور۔۔۔ بخار میں اس کا استعمال اچھے نتائج کا حامل ہوگا۔۔۔۔۔
کمر میں درد ہو تو انجیر کے تین چار دانے روزانہ کھانے سے درد سے نجات مل جاتی ہے۔
Wednesday, 9 April 2014
گرمیوں کی سبزیاں آپ کے صحت کی محافظ
موسم گرما کی سبزیوں میں بھنڈی، سبز مرچ، شملہ مرچ اور کریلہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ شملہ مرچ موسم گرما کی اہم سبزیوں میں شمار ہوتی ہے جس کی کاشت کیلئے معتدل اور مرطوب آب و ہوا موزوں رہتی ہے۔ پھل لگنے کے دوران اگر درجہ حرارت ۳۲ سینٹی گریڈ سے بڑھ جائے اور ہوا میں رطوبت بھی کم ہو تو شملہ مرچ کا پودا پھل دینا بند کردیتا ہے اور اگر دن کا درجہ حرارت ۱۶ درجہ سینٹی گریڈ سے کم ہو تو بھی پھل نہیں آتا۔ کم درجہ حرارت کی صورت میں شملہ مرچ کے پودے پر آنے والا پھل بہت چھوٹاا ور بیج کے بغیر ہوتا ہے جبکہ زیادہ درجہ حرارت کی صورت میں بھی بیج اچھا نہیں بنتا۔ پنجاب کے میدانی علاقوں میں شملہ مرچ کا بیج بطور پنیری اکتوبر کے وسط سے آخر تک بویا جاتا ہے اور اسے فروری کے وسط میں، جب کہر کا خطرہ نہ ہو، کھیت میں لگا دیا جاتا ہے۔
شملہ مرچ کی فصل مئی اور جون میں اچھی پیداوار دیتی ہے لیکن جولائی میں درجہ حرارت بڑھ جانے سے پھل کم لگتا ہے اور پودے وائرس کی بیماری ’’موزیک‘‘ کا شکارہوجاتے ہیں، جبکہ پھل بھی بہت چھوٹا لگتا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں شملہ مرچ کا بیج مارچ اور اپریل میں بطور پنیری بویا جاتا ہے اور پودے مئی کے دوران کھیت میں منتقل کئے جاتے ہیں جس کے بعد پھل اگست یا ستمبر میں حاصل ہوتا ہے۔ شملہ مرچ کی کاشت کیلئے بہت زرخیز میرا زمین، جس میں پانی کا نکاس اچھا ہو، بہتر رہتی ہے۔ زمین نامیاتی مادوں سے بھر پور ہونی چاہئے تاکہ یہ اپنے اندر پانی کو دیر تک قائم رکھ سکے۔ کاشت سے پہلے کھیت میں ایک بار مٹی پلٹنے والا ہل چلائیں اور زمین کو اچھی طرح ہموار کر لیں۔ ہموار زمین پر ۱۵ سے ۲۰ ٹن گوبر کی گلی سڑی کھاد فی ایکڑ ڈالیں اور ہل چلا کر زمین میں ملا دیں، جس سے کچھ عرصہ بعد کھیت میں جڑی بوٹیاں اگ آئیں گی۔ اس وقت کھیت میں ۲ بار ہل چلائیں اور فی ایکڑ ۳ بوری سپر فاسفیٹ اور ایک بوری امونیم نائٹریٹ ڈالنے کے بعد کھیت میں سہاگہ چلادیں۔
شملہ مرچ کے پودے لگانے کیلئے ڈھائی فٹ کے فاصلہ پر پٹریاں شرقاً غرباً بنائیں اور پٹریوں کے بعد ایک پٹری پر ڈھانچہ یا جنتر لگائیں۔ یہ نہ صرف مئی اور جون میں فصل کو سخت گرمی اور لو کے نقصان دہ اثرات سے بچائے گا بلکہ سخت آندھی کی صورت میں بھی پودوں کو ٹوٹنے سے محفوظ رکھے گا۔ اس کے علاوہ جنتر لگانے سے کھیت میں ہلکا سایہ ہونے کے باعث درجہ حرارت بھی کم رہے گا جس سے پودوں کی نشوونما بہتر رہے گی۔ شملہ مرچ یا پہاڑی مرچ کو سرخ مرچ کی نسبت پانی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، اسلئے ہر ۵ یا ۶ روز کے وقفہ سے آبپاشی کرتے رہیں۔ آب پاشی کے بعد کھیت میں زیادہ دیر تک پانی کھڑا نہیں رہنا چاہئے۔ گرمیوں کے موسم میں آبپاشی شام کے وقت یا رات کے دوران کی جائے تو بہتر ہوگا۔ کھیت میں خودرو پودوں اور جڑی بوٹیوں کو تلف کرنے کیلئے ۳ سے ۴ مرتبہ گوڈی کریں اور ہر بار گوڈی کرتے ہوئے پودوں پر مٹی چڑھاتے رہیں۔ شملہ مرچ کے پودے کھیت میں منتقل کرنے کے ایک ماہ بعد فی ایکڑ ۵۰ کلو گرام امونیم نائٹریٹ یا ۲۵ کلو گرام یوریا کھاد ڈالیں اور آبپاشی کر دیں۔ جب پھل اترنا شروع ہو تو ۳ چنائیوں کے بعد پھر فی ایکڑ ۵۰ کلو گرام امونیم نائٹریٹ ۲۵ کلو گرام یوریا کھاد ڈالیں اور آبپاشی کر دیں، جس سے پیداوار میں نمایاں اضافہ ہو جاتا ہے۔ شملہ مرچ کی کاشت کے لئے مارکیٹ میں زیادہ پیداوار کی حامل ہائبرڈ اقسام دستیاب ہیں۔
کریلا موسم گرما کی ایک اہم اور غذائیت سے بھرپور سبزی ہے، جس کی کاشت کیلئے معتدل آب و ہوا موزوں قرار دی جاتی ہے ۔ پنجاب میں اس کی کاشت عموماً فروری سے جولائی تک ہوتی رہتی ہے اور اس کے بیج کے اگاؤ کیلئے ۲۵ سے ۳۰ ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پنجاب کے وسطی اور جنوبی اضلاع فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ، جھنگ، رحیم یار خان، بہاولپور، بہاولنگر، ملتان، اور وہاڑی کریلے کی کاشت کیلئے موزوں ہیں، جبکہ صوبہ کے شمالی اضلاع شیخوپورہ، لاہور، گوجرانوالہ، گجرات، اوکاڑہ اور حافظ آباد کریلہ اور اسکے بیج پیداکرنے کیلئے موزوں ہیں۔
کریلے کی کاشت کیلئے ایسی زرخیز میرا زمین بہتر قرار دی جاتی ہے جس کی تیزابی خاصیت یعنی پی ایچ ۷ یا اس سے کم ہو اور جس میں پانی کی نکاسھ اچھی ہو۔ زمین میں نامیاتی مادہ کی مقدار میں مناسب اضافہ کیلئے فصل کاشت کرنے سے کم از کم ایک ماہ پہلے فی ایکڑ ۱۰ سے ۱۲ ٹن گوبر کی گلی سڑی کھاد ڈال کر مٹی پلٹنے والا ہل چلائیں، تاکہ زمین زیادہ گہرائی تک اکھیڑی جا سکے اور اگر پہلے سے کوئی فصل کاشت کی گئی ہو تو اس کی باقیات جڑوں سے اکھڑ کر گل جائیں اور نامیاتی مادوں میں اضافہ کا سبب بن سکیں۔
کریلے کی کاشت کیلئے کھیت کو ہموار کرنے کے بعد کیاریوں میں تقسیم کرلیں اور راؤنی کر دیں۔ وتر آنے پر ۲ یا ۳ مرتبہ سہاگہ چلا کر زمین کو اچھی طرح نرم اور بھربھرا کرلیں۔ داب کے طریقے سے جڑی بوٹیوں کو تلف کرنے کیلئے زمین کو چند دن تک چھوڑ دیں۔ اس کیلئے ’’فیصل آباد لانگ‘‘ محکمہ زراعت کی سفارش کردہ قسم ہے جسے ترجیح دینی چاہئے۔ اس قسم کے پودوں کا رنگ ہلکا سبز ہوتا ہے اور یہ فصل جلد پک کر تیار ہو جاتی ہے۔ کریلے کی فصل وسط فروری سے اپریل تک بوئی جاتی ہے اور مئی سے ستمبر تک پھل دیتی ہے۔ پچھیتی فصل جون یا جولائی میں کاشت کی جاسکتی ہے اور اسکا پھل اگست سے نومبر تک حاصل ہوتا ہے۔
کریلے کے بیج کی شرح کا دارومدار اس کی قسم پر ہوتا ہے۔ اچھی روئیدگی والا بیج ۲ سے ڈھائی کلوگرام فی ایکڑ کافی ہوتا ہے۔ اگر بیج کی روئیدگی خاطر خواہ نہ ہو تو پھر ساڑھے ۳ سے ساڑھے ۴ کلوگرام فی ایکڑ شرح بیج مناسب ہوتی ہے۔ کریلے کی بوائی کے وقت فی ایکڑ ۳ بوری سنگل سپر فاسفیٹ، ایک بوری امونیم نائٹریٹ اور ایک بوری پوٹاش ڈالیں۔ پھول آنے پر فی ایکڑ آدھی بوری یوریا کھاد استعمال کریں۔ پھل آنے پر ۳ چنائیوں کے بعد فی ایکڑ آدھی بوری یوریا ڈالتے رہیں۔ کریلے کی فصل کیلئے تیار شدہ زمین پر ڈھائی میٹر کے فاصلے پر لگائے ہوئے نشانوں کے دونوں طرف اسی تناسب سے کھاد بکھیر دیں اور پھر آدھا میٹر چوڑی پٹریاں بنائیں۔ پٹریوں کے دونوں اطراف کناروں پر تقریباً ۴۵ سینٹی میٹر کے فاصلے پر ۲ سے ۳ بیج ۳ سینٹی میٹر گہرائی میں بوئیں اور کھیت کی آبپاشی کر دیں۔ بیج کو کاشت سے پہلے بیج پر پھپھوند کش زہر بحساب ۲ سے ۳ گرام فی کلوگرام لگائیں۔
کریلے کی فصل کیلئے پہلی آبپاشی کاشت کے فوراً بعد کریں اس کے بعد ہفتہ وار آبپاشی کرتے رہیں۔ جب موسم گرم ہوجائے تو آبپاشی ۴ دن کے وقفہ سے یا ضرورت کے مطابق کریں۔ کریلہ چونکہ موسم گرما کی فصل ہے اس لئے اس کی آبپاشی میں غفلت نہیں برتنی چاہئے۔ جتنی زمین ٹھنڈی رہے گی اتنے ہی پھول زیادہ آئیں گے اور پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ ماہرین کے مطابق اگر کریلے کا بیج ۱۲ گھنٹے تک پانی میں بھگو کر کاشت کیا جائے تو دوسری آبپاشی پر ہی ۱۰۰ فیصد اگاؤ ہوجاتا ہے۔ جب فصل اگ جائے اور ۳ پتے نکال لے تو چھدرائی کرکے ہر جگہ صحتمند پودا چھوڑ کر فالتو پودے نکال دیں۔ جڑی بوٹیوں کی تلفی کے لئے گوڈی کریں اور اس دوران پودوں پر مٹی بھی چڑھا دیں۔ کریلے کی فصل کو جڑی بوٹیوں سے پاک رکھنے کیلئے جب بھی ضرورت ہو گوڈی ضرور کریں، ورنہ پیداوار متاثر ہو گی۔
Monday, 10 March 2014
نباتاتی نوادرات کا خزانہ بون کا بوٹینیکل گارڈن
دوستو آج آپ کو جرمنی کے شھر بون کے مشھور باغ جو قدرت کی طرف سے اہل جرمن کیلئے ایک بیش بہا خزانہ سے کم نہیں۔ جرمنی کے چھوٹے بڑے شھروں کے بے شمار باغات عام شھریوں کیلئے سیرو تفریح کے علاوہ ماحولیاتی تحفظ کی کوششوں میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان میں سے شہر بون کا بوٹینیکل گارڈن خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ باغ ہمیشہ ہی دنیا بھر میں علم نباتات اور باغبانی کے ماہرین کی خصوصی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔ بون شہر کا دل کہلانے والے علاقے پوپلزڈورف کے قلعہ کی حدود میں واقع اس مشہور باغ کا رخ کرنے والے ملکی اور غیر ملکی ماہرین نباتات وہاں اس لئے جاتے ہیں کہ پھولوں، پودوں اور درختوں کی ان ہزاروں اقسام کا مطالعہ کرسکیں جنہیں ماہرین ایک حقیقی خزانہ سمجھتے ہیں۔
اس نباتاتی خزانے میں ایسے پودے اور درخت بھی شامل ہیں جن کی اقسام دنیا بھر میں تیزی سے ناپید ہوتی جارہی ہیں۔ انہی حیاتیاتی نوادرات میں سے ایک ٫سیشلزنٹ‘ کا پودا بھی ہے جس کی مثال دیتے ہوئے میونخ کے معروف ماہر بناتات آندریاس گروئگر کہتے ہیں:
"سیشلز نٹ کے بون کے اس باغ میں مسلسل نشوونما پانے والے پودوں کودیکھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ آج کے دور میں ایسے باغات، نایاب ہوتی جارہی پودوں کی قسموں کے تحفظ کے لئے کتنے اہم ہیں۔ یہ پودا بحرہند کے علاقے کی بہت سے جزائر پر مشتمل ریاست سیشلز کے صرف دو جزائر پر پایا جاتا ہے۔ لیکن وہاں اپنے قدرتی ماحول میں بھی پودوں کی اس قسم کو ناپید ہوجانے کا شدید خطرہ لاحق ہے۔"
کئی ماہرین نباتات کو شکوہ ہے کہ یورپی ملکوں کے بہت سے شہروں میں عام افراد کی باغات اور پودوں میں دلچسپی بتدریج کم ہوتی جارہی ہے حالانکہ یہی باغات عام شہریوں، خاص طور سے بچوں اور نوجوانوں میں، اس احساس کو بہت تقویت دے سکتے ہیں کہ انہیں بھی تحفظ ماحول کے عمل میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے۔
میونخ کے ماہر نباتات آندریاس گروئگر کہتے ہیں: "ایسے باغات کی موجودگی سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہم شہریوں کو یہ بتا اور سکھا سکتے ہیں کہ کس طرح کے پودوں کی نشونما کس طرح کے ماحول میں کیسے کی جاتی ہے۔"
ابھی حال ہی میں بون کے اس باغ کا تفصیلی مطالعاتی دورہ کرنے والوں میں کینیڈا سے آنے والے ماہر حیاتیات ڈیوڈ اینزورتھ بھی شامل تھے جو مانٹریال میں اقوام متحدہ کے حیاتیاتی تنوع کے سیکریٹیریٹ کے لئے کام کرتے ہیں۔
ڈیوڈ اینز ورتھ کا بون کے اس مشہور زمانہ باغ کے بارے میں ایک سائنسدان کے طور پر تبصرہ بہت مختصر لیکن جامع تھا: "بوٹینیکل گارڈنز اس لئے اہم ہیں کہ ان کے ذریعے انسان ذاتی تجربے کی صورت میں سیکھتا ہے۔"
Sunday, 9 March 2014
پھلوں کے فائدے اور نقصانات
سیب Apple
سیب بہترین دماغی غذا ہے کیونکہ اس میں دوسرے پھلوں کی نسبت فاسفورس اور فولاد زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے
اور فاسفورس دماغ کی اصلی غذا ہے سیب جگر کے فعل کو درست کر کے سستی رفع کرتا ہے۔۔
ذینی اور دماغی قوت بخشتا ہے اس کے متواتر استعمال کرنے سے خون صالح پیدا کرتا ہے۔ رنگت نکھرتی ہے
رخساروں میں سرخی پیدا ہوتی ہے۔ گردے اور دانتوں کے لیے بھی فائدہ بخش ہے خواتیں کو خصوصیت کے ساتھ سیب زیادہ مقدار میں کھانا چاہیے
بےبیز کی دفعہ بکثرت استعمال سے فیمیل کو بہت سی بیماریوں سے دور رکھتا ہے تاثیر کے لحاظسے سیب گرم تر ہے سیب کا مربہ
دماغ اور خون کی کمزوری کیلیے مفید ہے سیب کسی حد تک بھاری اور دیرپا ہضم ہوتا ہے.
اور فاسفورس دماغ کی اصلی غذا ہے سیب جگر کے فعل کو درست کر کے سستی رفع کرتا ہے۔۔
ذینی اور دماغی قوت بخشتا ہے اس کے متواتر استعمال کرنے سے خون صالح پیدا کرتا ہے۔ رنگت نکھرتی ہے
رخساروں میں سرخی پیدا ہوتی ہے۔ گردے اور دانتوں کے لیے بھی فائدہ بخش ہے خواتیں کو خصوصیت کے ساتھ سیب زیادہ مقدار میں کھانا چاہیے
بےبیز کی دفعہ بکثرت استعمال سے فیمیل کو بہت سی بیماریوں سے دور رکھتا ہے تاثیر کے لحاظسے سیب گرم تر ہے سیب کا مربہ
دماغ اور خون کی کمزوری کیلیے مفید ہے سیب کسی حد تک بھاری اور دیرپا ہضم ہوتا ہے.
Saturday, 8 March 2014
پھلوں کے فائدے اور نقصانات
آم
آم مقوی اور زود ہضم ہے۔ مزاج کے اعتبار سے گرم تر ہے۔ نیا خون پیدا کرتا ہے جسم کو موٹا کرتا ہے رافع قبض اور پیشاب آور ہے۔
آم کے بعد دودھ پینے سے جسم میں طاقر آتی ہے۔ دل اور دماغ معدے اور پھپڑوں کو طاقت پہنچاتا ہے۔ نہار منہ آم کھانا مضر ہے۔
کھٹا آم بھی مضر صحت ہے۔ پختہ شیریں اور بے ریشہ آم پہتریں ہوتا ہے۔
Subscribe to:
Posts
(
Atom
)