Tuesday 1 October 2013

پودوں سےگھربھی سجایئں اور مچھروں کو بھی بھگائیں

زمانہ قدیم سے یہ حقیقت سبھی جانتے ہیں کہ قدرت نے نیم کے درخت میں بہیت سے طبی، زراعتی اور ماحولیاتی فوائد رکھے ہیں اور انہی فوائد کو جدید تحقیق نے بھی ثابت کیا ہے۔ نیم کے اجزاء کئی ادویات کئے علاوہ دیگر مصنویات بنانے کے بھی کام آتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ نیم کا درخت مچھروں کو بھگانے کا بھی ایک قدرتی ذریعہ ہے۔
نیم کے درخت کے ارد گرد مچھر نہیں ہوتے اور اسی وجہ سے ڈینگی کے خاتمے کیلئے اسے انتہائی کارآمد تصور کیا جاتا ہے۔ نیم کا درخت ماحول پر مثبت طور پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ درخت دن کے اجالے میں دیگر درختوں کے مقابلے میں زیادہ آکسیجن خارج کرتا ہے اور فضا کو وسیع پیمانے میں آلودگی سے صاف رکھتا ہے۔ نیم کی یہی افادیت کوار گندل (ایلو ویرا) میں بھی موجود ہے، جو رات کو وسیع پیمانے پر آکسیجن خارج کرتا ہے جس سے اردگرد کی فضاء آلودگی سے صاف رکھتی ہے۔ مختصر یہ کہ انسانی صحت کے لئے نیم کا درخت اور ایلو ویرا کا پودا قدرت کی بیش بہاء نعمتیں ہیں۔
کیڑے مکوڑوں سے نجات کیلئے استعمال ہونے والے پودوں میں حبشی پودینہ (ہورس منٹ پلانٹ) کی افادیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اس پودے کی خوشبو سے مچھر پریشان ہو کر دور بھاگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حبشی پودینہ کو صدیوں سے مکھی مچھر کو دور رکھنے کے لئے استعمال کیاجا تا ہے۔ اس پودے کو صحن میں لگانے یا کمرہ میں اسکا گملا رکھنے سے مچھر آپ کے قریب نہیں آئے گا۔
گیندے کا پودا یعنی میری گولڈ بھی اپنے بھول کی خوبصورتی اور کیڑے مکوڑوں کو دور رکھنے میں انتہائی معاون ثابت ہوتا ہے۔ گیندے کے پھول کی خوشبو بھی مچھروں کو پسند نہیں، اسلئے مچھروں سے چھٹکارا پانے کے لئے اسے چھوٹے کنٹینرز، گملوں، صحن یا مرکزی دروازے کے دونوں اطراف لگانے سے مچھروں کو گھر میں داخل ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ گلِ مینا کی نسل سے تعلق رکھنے والا سدا بہار کا پودا بھی اپنی خوشبو اور خاموش نیلے اور سفید پھولوں کے باعث مکھی مچھروں کیلئے نفرت انگیز سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مچھر اس پودے کے اردگرد بھی نہیں پھٹکتے۔
اس کے علاوہ گن گھاس یا سیٹرونیلا پلانٹ گھاس کی ایک خوبصورت قسم ہے اور اسے بھی مچھروں سے بچاؤ کیلئے انتہائی کارآمد تصور کیا جاتا ہے۔ یہ پرکشش، تروتازہ اور خوبصودار اونچی گھاس گھریلو باغیچوں میں لگانے سے بھی مچھروں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔
نیلے پھولوں سے سجا سنبل بری یا ’’کیٹنپ‘‘ نامی پودا بھی اسی مقصد کیلئے انتہائی کارآمد تصور کیا جاتا ہے، بلکہ بعض ماہرین نے اسے سب سے زیادہ طاقتور مچھر بھگاؤ پودا قرار دیا ہے اور حالیہ تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سنبل بری مچھروں کے خلاف کیمیاوی اسپرے کے مقابلے میں ۱۰ گنا زیادہ مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس پودے کے بلیوں پر بھی نشہ آور اثرات دیکھے گئے ہیں۔
ان پودوں کے علاوہ کلیل کوہستانی یا روز میری کو بھی تزئین و آرائش کے علاوہ قدرتی طور پر مچھروں کیلئے نفرت انگیز سمجھا جاتا ہے۔ خوبصورت پھولوں سے بھرا یہ پودا خوشبو میں اپنی مثال آپ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دیہی اور شہری علاقوں میں کیڑے مکوڑوں اور خاص طور پر مچھروں سے تحفظ کیلئے اپنی مدد آپ کے تحت ان پودوں کی گھر گھر شجرکاری سے متعلق آگاہی کا پروگرام تشکیل دیا جاسکتا ہے، جس کی مدد سے ڈینگی مچھر اور وائرس سے مستقل چھٹکارا حاصل کرنا ممکن ہے۔ موسم گرما میں مچھروں کی بہتاب ہوتی ہے اور ایسے میں ان پودوں کو زمین یا گملوں میں باآسانی لگایا جاسکتا ہے۔
دوسری جانب فکر انگیز بات یہ ہے کہ حکومت خاص طور پر پنجاب حکومت کیمیاوی اسپرے پر اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود ڈینگی مچھر پر قابو نہیں پا سکی، بلکہ ماہرین کا تو یہ کہنا ہے کہ کیمیاوی اسپرے کی وجہ سے مچھر دشمن اور مچھر خور دیگر حشرات بھی ختم ہورہے ہیں۔ ایسے میں حکومتی سطح پر سڑکوں کے کنارے نیم کے درخت کی شجرکاری کرنے سے ڈینگی مچھر اور وائرس سے مستقل چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔