Monday 30 September 2013

میں پھول ھوں میری خوشبو تم ھو.میں دل ھوں میری دھڑکن تم ھو

باغبانی ایک جنون ھے جسے آپ محبوب کا نام بھی دے سکتے ہیں،جب تک پھولوں سے محبت نہ کریں گےتو اس وقت تک گھر گل گلزار نہیں بن سکتا۔ 

میں پھول ھوں میری خوشبو تم ھو.میں دل ھوں میری دھڑکن تم ھو.

میں جان ھوں میری روح تم ھو.میں جسم ھوں میری زندگی تم ھو.

میں ساغر ھوں میری ہلچل تم ھو.میں سپنا ھوں میری تعبیر تم ھو.

میں عکس ھوں میری حقیقت تم ھو. میں لب ھوں میری بات تم ھو.میں مکمل تب ھوں جب ساتھ تم ھو....

Sunday 29 September 2013

جگہ کی کمی شوق کی راہ میں اڑے نہیں آسکتی

اگر آپ کا گھر چھوٹا ھے اور باغبانی بھی کرنا چاہتے ہیں مایوس نہ ھوں گھر کی چھت بھی استمال کی جاسکتی ھے مسال کے طور یہ تصویر دیکھیں۔

Saturday 28 September 2013

پھول ہماری معاشرت کا حصہ ہیں،

آسان گھریلو باغبانی۔سید فقیراللہ شاہ
اگر کہا جائے کہ ’’وجودِ گل سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘ تو مجھے یقین ہے کہ اکثر لوگ مجھ سے اتفاق کریں گے۔ ذرا سوچیے تو، اگر ہماری دنیا میں یہ پھول بوٹے اور ہریالی نہ ہوتی تو ہماری زندگی کتنی بے رونق اور بدنما ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہر انسان کی جمالیاتی حس کو ناپنے کا پیمانہ ہی بعض اوقات چمن آرائی کو سمجھا جاتا ہے۔ پھول ہماری معاشرت کا حصہ ہیں، کہیں کہیں تو انہیں باقاعدہ صنعت کا درجہ دے دیا گیا ہے، اور کہیں یہ صرف تعلیم دینے کے طور پر استعمال ہورہے ہیں۔ آج کل تو پھولوں کی سجاوٹ اور باغبانی کا علم دینے کے باقاعدہ ادارے وجود میں آچکے ہیں۔ آج کی بھاگ دوڑ کی طرزِ معاشرت اور زمین کی قلت نے باقاعدہ طور پر کسی قطعہ زمین پر باغبانی کے شوق کو کسی حد تک ختم کردیا ہے… لیکن پریشان نہ ہوں، اگر آپ بھی باغبانی کا شوق رکھتے ہیں لیکن زمین کی قلت یا فاضل زمین نہ ہونے سے پریشان ہیں تو فکر کرنا چھوڑ دیں۔ ہم آپ کو ذیل میں مکان، بنگلے یا فلیٹ میں باغیچہ بنانے کے لیے چند ضروری معلومات فراہم کررہے ہیں جن پر عمل کرکے آپ یقینا اپنا شوق پورا کرسکیں گے۔
اگر آپ کے گھر میں باغیچہ ہے یا زمین کا کوئی چھوٹا سا ٹکڑا ہے تو پھر آپ باآسانی اس میں پھلواری پیدا کرسکتے ہیں۔ اس کام کے لیے سب سے ضروری چیز موزوں زمین کا ٹکڑا ہے۔ ایسی زمین، جس میں اگر ملبہ وغیرہ پڑا رہا ہے یا پھر اسے وہیں دبا دیا گیا ہے تو ملبے میں شامل تلف نہ ہونے والی چیزیں کافی تکلیف دہ ہوتی ہیں اور یہ باغیچہ کے پروان چڑھنے میں بھی رکاوٹ ڈالتی ہیں۔ ہم اکثر کہتے ہیں کہ پھلواری لگانے کی تو بہت کوشش کی لیکن زمین ہی خراب ہے یا پانی کھارا ہے وغیرہ وغیرہ۔
آپ اگر باغیچہ بنانے کے خواہش مند ہیں تو سب سے پہلے زمین کی قسم معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ آیا زمین ریتیلی ہے، پتھریلی ہے یا کلر زدہ ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایک گلاس میں تھوڑی سی مٹی ڈال کر اسے پانی میں خوب حل کریں۔ پھر گدلا پانی پھینک دیں، جو ریت گلاس میں نیچے بیٹھی ہوئی ملے گی اُس سے اندازہ کرلیں کہ ریت میں مٹی کی کتنی آمیزش ہے۔ اچھی مٹی میں ریت اور مٹی کی مقدار برابر برابر ہوتی ہے، جس کی وجہ سے پودوں کو جڑوں تک ہوا اور نمی یکساں مقدار میں ملتی رہتی ہے۔
پھلواری لگانے سے پہلے مجوزہ باغیچے کی مٹی تیار کریں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ مٹی میں ریت اور گوبر کی کھاد کو مکس کرکے دو دن تک پڑا رہنے دیں۔ اس کے بعد کیاریوں میں یا گملوں میں یہ ملی جلی مٹی منتقل کرلیں۔ آپ موسمی پھول لگانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے زیادہ موٹی تہہ لگانے کی ضرورت نہیں، کیونکہ موسمی پھول اپنی جڑیں زیادہ سے زیادہ 4 انچ تک ہی پھیلا سکتے ہیں، لیکن اگر آپ سدا بہار یا کسی اور قسم کے پودے اگانا چاہتے ہیں تو پھر مٹی کی تہہ زیادہ موٹی رکھنی پڑے گی۔ اگر آپ ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں کی مٹی چکنی ہے تو پھر مٹی میں بھل ملانا ضروری ہوتا ہے، کیونکہ چکنی مٹی میں جڑیں نشوونما نہیں پا سکتیں۔ اچھی زمین بنانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ آپ کم از کم ایک فٹ تک اس علاقے کو جہاں پھلواری لگانے کا سوچ رہے ہوں، الٹ پلٹ کرتے رہیں تاکہ سورج کی الٹراوائلٹ شعاعوں اور تازہ ہوا سے مٹی میں تبدیلی آسکے۔
آپ نے اگر مجوزہ طریقے سے زمین تیار کرلی ہے تو آپ نہ صرف اس زمین پر باغیچہ بنا سکتے ہیں، بلکہ اگر باغیچہ بنانے کے لحاظ سے زمین کم ہے تو پھر اس مٹی کو گملوں میں بھر کر اس میں بھی پھول کھلا سکتے ہیں۔
اچھی پھلواری اگانے کے لیے دوسری چیز کھاد ہے جو آپ باآسانی گھر پر بھی تیار کرسکتے ہیں۔ اگر جگہ کم ہے تو لان کے کونے میں ایک گڑھا کھود کر پتّوں اور سبزیوں کے چھلکوں کو جمع کرتے جائیں۔ گڑھا کم از کم پانچ فٹ گہرا ضرور ہونا چاہیے۔ خزاں کے موسم میں تو اس گڑھے کو بھرنے میں صرف دو روز ہی لگیں گے۔ گڑھا جب پتّوں سے بھر جائے تو اس پر مٹی کی کم از کم چھ انچ موٹی تہہ لگا دیں اور اوپر سے پانی ڈالیں تاکہ مٹی کی نمی قائم رہ سکے۔ زیادہ پانی نہ ڈالیں کیونکہ اس طرح سے کھاد خراب ہوجائے گی۔ تین سے چار مہینے میں یہ کھاد تیار ہوجائے گی۔ یہ جانچنے کے لیے کہ آیا کھاد تیار ہے کہ نہیں، درست طریقہ یہ ہے کہ آپ کھاد والے گڑھے کو کھود کر دیکھیں کہ ان چیزوں کی جن کے ذریعے کھاد بنائی جارہی ہے، رنگت تبدیل ہوئی ہے یا نہیں۔ ان کی بدبو ختم ہوئی ہے یا ابھی باقی ہے۔ یہ بھربھری ہوئی ہے یا نہیں۔ اگریہ تینوں علامات ان میں نظر آجائیں یعنی کہ ان چیزوں کی اصل مہک ختم ہوجائے، اصل رنگت تبدیل ہوجائے اور وہ بھربھری ہوجائے تو پھر سمجھیں کہ کھاد تیار ہے، ورنہ کچھ دن اور انتظار کریں۔ یہ کھاد پھلواری کے لیے بہت موزوں ہے کیونکہ اس میں اتنی تیزی نہیں ہوتی، اور یہ موسمی پھولوں کے لیے بہترین ہے۔ اگر یہ کھاد میسر نہ آسکے تو پھر گوبر کی کھاد استعمال کریں، لیکن بہت تھوڑی مقدار میں… ورنہ کھاد زیادہ استعمال کرنے سے ننھے منے بیج اور نوزائید پودے ختم ہوجائیں گے۔
زمین کی تیاری، کھاد اور مٹی کی تیاری کے بعد موسمی پھلواری کے لیے ایک اہم عمل یہ بھی ہے کہ جب تک بیج میں سے نوزائیدہ پودے نکل نہ آئیں آپ انہیں تیز دھوپ اور سردی سے بچائیں۔ بیج پر ہلکی سی تہہ ہی کھاد ملی مٹی کی ہو۔ زیادہ گہرائی میں بیج ڈالنے سے بھی بیج خراب ہوجاتا ہے۔ زیادہ اونچائی سے پانی نہ دیں کہ مبادا بیج گہرائی میں چلے جانے کی کوشش کریں۔ فوارے سے پانی دیں تاکہ یکساں پھوار سے پانی پڑے۔
تو یہ تھیں وہ تراکیب جن کی مدد سے آپ بہترین نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر احتیاط کی جائے اور ان عوامل کو نظر میں رکھا جائے تو مجھے امید ہے کہ بہار کے موسم میں آپ کی کیاریاں اور گملے صحیح بہار کا نمونہ پیش کریں گے۔

Monday 23 September 2013

آسان گھریلو باغبانی : خوشبو بھی علاج بھی

آسان گھریلو باغبانی : خوشبو بھی علاج بھی: باغبانی زندگی کا ایک ایسا حسین حصہ ہے۔ جو آپ کے خیالات واحسات کو خوبصورت تر بناتا ھے پھول کسے اچھے نہیں لگتے اور اگر آپ کو معلوم پڑ جائے...

خوشبو بھی علاج بھی

  • باغبانی زندگی کا ایک ایسا حسین حصہ ہے۔ جو آپ کے خیالات واحسات کو خوبصورت تر بناتا ھے پھول کسے اچھے نہیں لگتے اور اگر آپ کو معلوم پڑ جائے کہ یہ خوبصورت پھول آپ کے بہترین معلج بھی ہیں تو کیسا ھوگا۔

تو میں آج آپ سے کچھ پھولوں کی خوشبو سے علاج کا زکر کروں گا۔مختلف ان کے ذہنی و جسمانی کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے۔ سائنسی ترقی نے جہاں انسان کو ان گنت سہولتیں اور آسائشیں فراہم کی ہیں وہاں ذہنیپھولوں'پھلوں اور ہربز کی خوشبو متعدد بیماریوں سمیت ذہنی امراض خصوصا ذہنی دباؤ کو نمایاں طور پر کم کرتی ہے۔ پھلوں میں لیموں، آم اور مالٹے کی خوشبو ذہنی دبا ؤ و دیگر امراض کی شفایابی میں مدد دیتی ہے ہربز میں پودینہ جبکہ پھولوں میں گلاب کی خوشبو انسدبا ؤ اور نفسیاتی و ذہنی امراض میں بھی انتہائی اضافہ ہوا ہے۔ بعض خوشبوئیں سونگھنے سے ذہنی دباو ذہنی امراض سے تعلق رکھنے والے مخصوص جین متحرک ہوجاتے ہیں اور خون کی کیمسٹری میں ایک مخصوص تبدیلی واقع ہوتی ہے جس سے ذہنی امراض خصوصا ذہنی دباؤ کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔  پھلوں میں لیموں، آم اور مالٹے کی خوشبو ذہنی دباؤ امراض کم کرنے میں مدد دیتی ہے ہربز میں پودینہ جبکہ پھولوں میں گلاب کی خوشبو انسان کے ذہنی و جسمانی کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے۔ اس کی خوشبو سے یادداشت میں اضافہ ہوتا ہے الزائمر کی مرض سے بچا ؤ میں انتہائی موثر ہے۔ الزائمر ایک دماغی بیماری ہے جس سے بہت آہستگی کے ساتھ متاثرہ فرد اپنی یادداشت کھو دیتا ہے ۔ رات کے اوقات میں گلاب کی خوشبو سونگھنے سے افراد کی ذہنی صحت پر انتہائی مفید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انسانی دماغ کا اہم حصہ'' ہیپو کیمپس ''یادداشت کا ذخیرہ ہوتا ہے۔ رات کے وقت خوشبو سونگھنے سے دماغ کے اس اہم حصہ کی کارکردگی بڑھ جاتی ہے اور انسان کی یادداشت کو مضبوط بنا دیتی ہے۔

Thursday 19 September 2013

خوشبو کے سفیر بنیئے

زراعت میں اکثر ہورٹیکلچر کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، جس سے مراد تزئین و آرائش کیلئے استعمال ہونے والے پھولوں اورپودوں کی
باغبانی ہے۔ دنیا بھر میں پھول خوبصورتی کے لئے لگائے جاتے ہیں اور ان سے ماحول کی رعنائیت اور تازگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ دنیا میں پھولوں، درختوں اور بیلوں کے ذریعے ایسے شاندار شاہکار بنائے گئے ہیں جو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ امریکہ اور افریقہ کے مختلف شہروں میں پھولوں اور درختوں کے ذریعے بادشاہوں، شاعروں اور تاریخی شخصیات کے مجسمے تک بنائے گئے ہیں جو انتہائی دلکش اور دیدہ زیب ہیں۔ یقیناًان فن پاروں کو بنانے کے لئے بہت محنت کی گئی ہے۔
باغبانی ایک قدیم اور بہترین مشغلہ ہے اور دنیا بھر کے لوگ اسے برسوں سے اپنائے ہوئے ہیں۔ پھول، پودے اور درخت انسان کیلئے خاص اہمیت رکھتے ہیں، کیونکہ طبعیت کی خوشگواری میں پودوں اور پھولوں کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ لوگ عموماً اپنے گھر کے باغ اور سبزے میں خوبصورتی کے لئے پھول اور پودے جبکہ پھلوں کے لئے درخت لگاتے ہیں۔
شاعری سے لیکر ثقافتی اور علاقائی روایات تک، پھول ایک ایسی اہم چیز ہے جو تمام گلے شکوں کو دور کر دیتا ہے اور اسی لئے دنیا بھر میں خلوص و محبت کے اظہار کا بہترین ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ پھول نہ صرف ماحول میں خوبصورتی پیدا کرتے ہیں بلکہ دنیا بھر میں ان سے انتہائی منافع بخش کاروبار بھی کیا جاتا ہے۔
سال ۲۰۰۵ء کے دوران چین میں زرعی سائنسدانوں کے ایک گروپ نے ۸ سالہ تحقیق کے بعد ’’اورکیڈ‘‘ کی ایک نئی قسم تشکیل دی ہے جس کی شکل اور پتیاں دیگر تمام پھولوں سے مختلف تھیں۔ یہ پھول نہایت منفرد نوع کا حامل تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس کی فروخت ۱۶ لاکھ ۸۰ ہزار ڈالرز میں کی گئی۔ اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ باغبانی یا ہورٹیکلچر کے ذریعے کاروبار کسقدر منافع بخش ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ’’کاڈوپل‘‘ نامی پھول کا شمار بھی مہنگے ترین پھولوں میں کیا جاتا ہے۔ اس پھول کی سب سے اہم خصوصیت اس کا آدھی رات کے وقت کھلنا اور پھر مرجھا جانا ہے۔ ’’کاڈوپل‘‘ کو سری لنکا می چند ایک مقامات پر دیکھا گیا ہے۔
دیگر مزید مہنگے پھولوں میں سیفرون، کیننا، چیری بلوسم، کولریڈو کمبائن، ہائیڈرینجیا، للی آف دی ویلی، بلیک آئڈ سوسن، بلیڈنگ ہرٹ، بلو بیلز، لینتانا، گلاب، اوینٹل پوپی، موسائنڈا اری تھو پائیلا، بیگونیا، لزورا اور ڈینڈ روبیم شامل ہیں۔
دنیا بھر میں پھولوں کی پیداوار کے ذریعے قیمتی زرمبادلہ بھی حاصل کیا جاتا ہے، جبکہ اس کاروبار میں صرف ایک ہی مسئلہ ہے کہ پھول کی نشوونما، ان کی خوراک، روشنی اور مناسب جگہ کے انتخاب کیلئے متعلقہ اہم اور مفید معلومات کا حصول۔
پھولوں کی پیدا وار اور نشوونما کے لئے جاپان دنیا بھر میں اپنا خاص مقام رکھتا ہے، جبکہ چینی سائنسدانوں کے مختلف گروپس کی توجہ بھی ہورٹیکلچر انڈسٹری پر ہے۔ چین کے زرعی سائنسدان مختلف تحقیق کے ذریعے پھولوں کی نئی اقسام تیار کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں جس سے انہیں بے مثال منافع بھی حاصل ہوتا ہے، کیونکہ اس طرح کی صرف ایک یا دو اقسام کے پھولوں کی قیمت لاکھوں ڈالر میں وصول کی جاتی ہے۔
پاکستان کے مختلف علاقوں میں بھی لوگ باغبانی میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں، جبکہ صوبہ پنجاب اور سندھ کے علاوہ گلگت بلتستان اور دیگر شمالی علاقہ جات میں پھلوں اور پھولوں کے باغات بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
پھولوں کی باغبانی برصغیر پاک و ہند کی قدیم روایات میں شامل ہے، کیونکہ ہمارے یہاں گلاب، موتیا، چمبیلی، ٹیولپس اور دیگر پھولوں اور ان کی پتیوں کو شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ پاکستان سے روایتی پھولوں کی چند اقسام کو مشرق وسطٰی کے ممالک میں بھی برآمد کیا جاتا ہے اور ویلنٹائن ڈے کیلئے پاکستان کے گلاب کو یورپی ممالک میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
گزشتہ چند سال سے مغربی ثقافت کی یلغار نے پاکستان میں مقامی طور پر بھی گلاب کے پھولوں کی قدر و قیمت میں بے پناہ اضافہ کیا ہے، اور اب نیو ایئر، ویلنٹائن ڈے اور اسی نوعیت کی دیگر تقریبات کے موقع پر گلاب کے پھولوں کی فروخت ریکارڈ سطح پر پہنچ جاتی ہے۔ پاکستان میں بہترین گلاب کی اقسام پنجاب کے علاوہ شمال مغربی علاقوں کی وادیوں اور بلوچستان کے پہاڑی علاقے میں حاصل کی جاتی ہے۔
تجربات کے ذریعے گلاب کی متعدد نئی اقسام بنائی گئی ہیں جن میں سفید، پیلا، خوشبودار اور غیر خوشبودار پھول شامل ہیں، جبکہ گلاب کے پھول کا عرق بھی مشرقی روایات کا حصہ اور اہم کاروباری جنس سمجھاجاتا ہے۔ یونانی طریقہ علاج میں تازہ گلاب سے تیار کیا گیا مرکب یعنی گلقند متعدد بیماریاں دور کرنے کیلئے دوا کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ دیسی گلاب کو سونگھنے سے ہی دل کی دھڑکن میں نظم اور دماغ کو بیداری و قرار حاصل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ گلاب کا پھول عطر یا پرفیوم بنانے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
کاروبار کے اعتبار سے چمبیلی کے پھول کی خوشبو بھی پھولوں کی دنیا میں ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ یہ پھول رات کے وقت اپنی تازگی کا جادو جگاتا ہے۔ جس جگہ چمبیلی کا پودا لگا ہو وہ علاقہ خوشبو سے مہک اٹھتا ہے۔ چمبیلی کے پتوں سے چائے تیار کی جاتی ہے، جسے چین کے باشندوں نے متعارف کروایا تھا۔ چمبیلی کی چائے ذہنی اور جسمانی تھکان میں سکون کا باعث بنتی ہے جبکہ چمیلی سے تیار کیا جانے والا تیل بھی مہنگے داموں فروخت ہوتا ہے، کیونکہ چمیلی کے بیشمار پھولوں سے صرف چند قطرے تیل ہی نکلتا ہے۔ چمبیلی کا تیل چین، بھارت، مراکش اور مصر کی اہم مصنوعات میں شامل ہے۔
پاکستان میں باغبانی کی ترقی کیلئے ہورٹیکلچر سو سائٹی آف پاکستان (ایچ ایس پی) سرگرم عمل ہے۔ اس سوسائٹی کا قیام ۱۹۴۸ء کے دوران عمل میں لایا گیا جس کے بعد ایچ ایس پی کے تحت کراچی میں طبی خصوصیات کے حامل پھولوں کی پہلی نمائش ۱۹۴۹ء میں منعقد کی گئی۔ یہ سوسائٹی باغبانی کو فروغ دینے کیلئے پھولوں کی متعدد نمائشوں اور تربیتی پروگرامز کا انعقاد نہایت کامیابی سے کر چکی ہے، جبکہ شہری ماحول کو خوبصورت بنانے اور پھولوں کی تازگی بکھیرنے کے لئے ایک بھی یہ سو سائٹی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
پاکستان میں باغبانی کے فروغ کیلئے وزارت تجارت کی جانب سے پاکستان ہورٹیکلچر ڈیویلپمنٹ اینڈ ایکسپورٹ کمپنی (پی ایچ ڈی ای سی) تشکیل دی گئی ہے، جبکہ پاکستانی ہورٹیکلچر مصنوعات کو بیرون ملک متعارف کرانے کی ذمہ داری بھی اسی ادارے کو دی گئی ہے۔ اس کے دیگر فرائض میں انفراسٹرکچر، مثلاً ایگرو پروسیسنگ زون، کولڈ چین سسٹم اور پروسیسنگ پلانٹ وغیرہ کی دیکھ بھال شامل ہیں۔
پاکستان کی ہورٹیکلچر انڈسٹری کو عالمی سطح پر متعارف کروانے کے وسیع مواقع موجود ہیں، جبکہ ہماری سرزمین ایسے خوبصورت پھولوں اور نباتات کی دولت سے مالا مال ہے جو دنیا بھر کے قدرتی حسن سے محبت رکھنے والوں اور ہورٹیکلچر کے شعبے سے وابستہ کاروباری افراد کے لئے باعث کشش ہیں۔ پاکستانی پھولوں اور پودوں کی دنیا بھر میں مانگ ہے، لیکن انہیں عالمی منڈی میں متعارف کروانے کیلئے منظم طریقہ کار کی ضرورت ہے، تاکہ ہورٹیکلچر مصنوعات کی برآمدات میں اضافہ کیا جاسکے۔
پھول قدرت کا حسین تحفہ ہیں، اس کےلیئےخوشبو کےسفیربننا ھوگا ۔

گل داؤدی (Chrysanthemum)


گل داؤدی (Chrysanthemum) خزاں اور ابتدائی موسم سرما کا اہم پھول ہے۔ اسکے کئی رنگ، نمونے اور قسمیں ہیں۔اس وقت دنیا میں اس پھول کی تقریباً 5 ہزار سے زائد اقسام موجود ہیں۔ یہ پھول انتہائی خوبصورت ہوتے ہیں۔ پھول کافی دن کھلا رہتا ہے۔ گل داؤدی کی نمائش بہت لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ پاکستان میں گل داؤدی کی نمائش اسلام آباد، راولپنڈی، جہلم،لاہور اور کراچی میں ہوتی ہیں۔


Tuesday 17 September 2013

میرا گھر پاکستان

بسم الله الرحمن الرحيم
میرا گھر پاکستان
پاکستان چند الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ ان ھزاروں مسلمان شہدہ کی قربانیوں کا نام ھے۔جنہوں نے انگریز وھندو کی غلامی سے آزاد ھوکر اپنے گھر پاکستان کی طرف ہجرت کی ،میری یہ پہلی تحریر ان پاکستانی ماں بہنوں بھائیوں کے نام جنہوں نے میرا گھر پاکستان کو میرا بنایا۔