Saturday 24 May 2014

کالی مرچ جس کی تلاش میں انڈیا یورپ والوں کےہاتھ آ گیا تھا


***کالی مرچ***
جس کی تلاش میں انڈیا یورپ والوں کےہاتھ آ گیا تھا
کالی مرچ ہمارے پسندیدہ اور مزیدار کھانوں میں اکثر استعمال ہوتی ہے شاید آپ کو یہ معلوم ہو کہ یہ کہاں سے آتی ہے اور کس طرح پیدا ہوتی اور تیار کی جاتی ہے لیکن کیا آپکو یہ یہ بھی معلوم ہےکہ اس مسالے کی کشش یورپی قوموں کو انڈیا کھنیچ کر لائی تھی اور بالاخر وہ ہمارے حاکم بن بیھٹے تھے؟
کسی زمانے میں کالی مرچ اتنی قیمتی تھی کہ اسے کالا سونا کہا جاتا تھا
آجکل کالی مرچ اکثر گھروں کے باورچی خانوں میں پائی جاتی ہے اور یہ اتنی آسانی سے دستیاب ہے کہ ہم اسے کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے۔ البتہ کسی زمانے میں یہ اتنی قیمتی تھی کہ اسے کالا سونا کہا جاتا تھا اور مہمانوں کیلیے تیار کردہ کھانوں میں کالی مرچ کا استعمال میزبان کی دولت اور طاقت کا بلا انکار ثبوت تسلیم کیا جاتا تھا۔ یورپ میں اس قیمتی اور نایاب مسالے کی ہر کسی کو تلاش تھی۔ لیکن انکو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ کہاں پیدا ہوتا ہے اور اسے کیسے تیار کیاجاتا ہے۔ اس کے متعلق وہاں کئ بے بنیاد کہاوتیں مشہور تھیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ اڑنے والےانتہائی زہریلے سانپ کالی مرچ کے جنگلوں کی رکھوالی کرتے ہیں اور مقامی لوگ جنگلات کو آگ لگا کر ان سانپوں کو عارضی طور پر بھگانے کے بعد اس مسالے کوحاصل کرتے ہیں جسکی وجہ سے اسکا رنگ کالا ہوتا ہے اور اسمیں آگ کا زائقہ پایا جاتا ہے۔
کای مرچ کیرلا انڈیا میں پائی جاتی ہے
کالی مرچ کا مقام پیدائش انڈیا میں کیرلا کے علاقے میں ہے جہاں یہ درختوں پر چڑھی ایک بيل پر سبز بیری کی صورت میں لگتی ہے یہاں کے لوگ ہزاروں سالوں سے ان بیریوں کو چن کر ان سے مسالہ تیار کرتے چلے آ رہے ہیں۔ کئی صدیوں تک یورپ میں بیچنے اور اس سے بے شمار دولت کمانے والے صرف عرب تاجر تھے کیونکہ اس علاقے کا راستہ صرف وہی جانتے تھے اور وہ اپنے گاہکوں تک اس راز کو پہنچنے نہیں دے رہے تھے اور اوپر سے اس راز کو محفوظ رکھنے میں یورپی لوگوں کی بے بنیاد کہاوتیں بھی ان تاجروں کیلیے مدد گار ثابت ہو رہی تھیں۔ اسطرح انہیں اس مسالے کی تجارت پر مکمل تسلط حاصل تھا لیکن اسکے ختم ہونے کا وقت زیادہ دور نہیں تھا۔
یہ درختوں پر چڑھی ایک بيل پر سبز بیری کی صورت میں لگتی ہے
تین دن کیلیے سبز بیریوں کودھوپ میں سُوکھا کر کالی مرچ تیار جاتی ہے۔
اس مسالے کا یورپ میں استعمال رومن دور میں شروع ہوا تھا البتہ پندرویں صدی عیسوی کے دوران یورپی امیر گھروں کے کھانوں کے علاوہ کالی مرچ کا استعمال 'کالی موت' یا طاعون کے علاج کیلیے بھی شروع ہوگیا جسکے پھیلنے سے وہاں لوگ بڑی تعداد میں مر رہے تھے۔اس قیمتی مال کی سخت ضرورت اور شدید مانگ کی وجہ سے 8 جولائی 1497 میں پرتگال نے اپنے سب سے اعلٰی سمندری جہازراں واسکو ڈَ گاما (Vasco da Gama) کو کالی مرچ کے مَنبع کو تلاش کرنے کی مہم پر روانہ کیا۔ ڈَ گاما کا فلاٹیلا مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے سمندری ہواوں کی مدد سے افریقی ساحلوں کے کٹھن بحری راستے سے مئی 1498 میں انڈیا تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ اسطرح اسے یورپ میں سب سے پہلے انڈیا تک سمندری راستہ تلاش کرنے کا مقام بھی حاصل ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ ڈاگاما کےاس کارنامے سے پرتگال کا جیک پاٹ نکل آیا تھا۔
1497 میں پرتگال نے اپنے سب سے اعلٰی سمندری جہازراں واسکو ڈَ گاما (Vasco da Gama)
کو کالی مرچ کے مَنبع کو تلاش کرنے کی مہم پر روانہ کیا
ڈَ گاما انڈیا پہنچنے سے پہلے یہاں بے دین جنگلی وحشی دیکھنے کی امید لگائے بیٹھا تھا جو بيکار یورپی اشیا کے بدلے اپنا کالا سونا با خوشی اسکے حوالے کر دیں گے۔ جب ڈیگاما کیرلا کے شہر Kochi کوچی پہنچا تو اس کے بالکل برعکس لوگوں کو sophisticated اور بہت دولتمند پایا۔ دور دور سے عرب، چینی اور کئی دوسرے تاجر صدیوں سے اس ہر دیسی یا cosmopolitan مرکز پر تجارت کیلیے آ رہے تھے۔ پندرہیویں صدی میں کیرلا کیلیےکالی مرچ وہی مالی مقام رکھتی تھی جو آجکل گلف کی ریاستوں کیلیےتیل رکھتا ہے۔
ڈَ گاما کے کیرلا میں آنے کے آٹھ سال کے اندر ہی پرتگال نے اس علاقے میں اپنے قدم اچھی طرح سے جما لیے تھے۔ انہوں یہاں ایک قعلہ بھی تعمیر کر لیا تھا جہاں انہوں نے انڈیا میں اپنے پہلے وائسروے کو قیام دیا۔ سولویں صدی کے آغاز سے پہلے ہی پرتگالی مسالوں کی تجارت میں سب سے آگے نکل چکےتھے اور جو مال وہ تجارت سے حاصل نہیں کر سکتے تھے، اپنی طاقت سے چھین لیتے تھے۔ کالی مرچ کی خاطر پرتگال نے انڈیا کے مسالے والےساحلی علاقوں کو اپنے محاصرہ میں لےلیا تھا ۔
ایک مرتبہ جب انہیں یہ یقین ہو گیا کہ انڈیا میں کالی مرچ کی تجارت اب انکے مکمل قابو میں ہے تو انہوں نے اپنی توجہ دوسرے مسالوں کو ڈھونڈنے کی طرف کر دی۔ ان کی تلاش کیلیے اگلا مسالہ دار چینی تھا جو سولویں صدی کے یورپی امیر لوگوں میں بے حد مقبول تھا۔ یہ کالی مرچ سے بھی زیادہ نایاب تھا اور اسکا ممبع بھی انکلیے نامعلوم تھا۔کیرلا کے آس پاس کے سمندر میں عرب تجارتی جہازوں پرمسلسل چھاپوں میں انہیں بار بار ان پر لدے مال میں دار چینی مل رہی تھی اسلیے انہیں شک تھا کہ یہ مسالہ کہیں آس پاس ہی پایا جاتا ہے لیکن کیرلا کے سمندر سے آگے کے علاقے سے وہ بلکل ناواقف تھے۔ 1506 میں پرتگالی ایک عربی جہاز کا پیچھا کرتے ہوے طوفان میں راستہ بھٹک گے اور انہوں ایک انجان ساحل پر پناہ لی۔ یہ سری لنکا کا ساحل تھا اور دار چینی یہاں ہی پائی جاتی تھی اور یوں انہیں دار چینی کا ممبع بھی مل گیا۔
کالی مرچ اور دار چینی جیسے مسالے دینا بھر میں کھانے کے طریقوں میں انقلابی تبدیلیوں کے باعث بنے ہیں اور آج بھی مقبول ہیں لیکن انکی تلاش نہ صرف ہماری تاریخ کا رخ بدلنے کا باعث بنی بلکہ اس نے جدید دینا کی شکل بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ان مسالوں کی مدد سے شہنشاہی سلطنتیں بنیں اور ٹوٹیں، انکی خاطر قوموں کی آزادی چھن گئی اور قتل و غارت میں بے شمار انسانی جانوں کا نقصان ہوا۔
کالی مرچ اور دار چینی دو معمولی سے مسالے اور ایک غیر معمولی ماضی کے مالک جن کی تلاش سے یورپی لوگوں کے دولت سے خزانے بھر گے لیکن جن لوگوں نے انہیں اپنی محنت سے بنایا انکو اور انکی قوم کو اسکے بدلے میں کیا حاصل ہوا ؟

No comments :

Post a Comment