Thursday 17 April 2014

انجیر۔۔۔۔۔۔ کے فوائد

انجیر۔۔۔۔۔۔"

انجیر کو جنت کا پھل بھی کہا جاتا ہے۔۔۔ یہ کمزور اور دبلے پتلے لوگوں کے لئے نعمت بیش بہا ہے۔۔۔ انجیر جسم کو فربہ اور سڈول بناتا ہے۔۔۔ چہرے کو سرخ و سفید رنگت عطا کرتا ہے۔۔۔ انجیر کا شمار عام اور مشہور پھلوں میں ہوتا ہے۔۔۔
انجیر کے اندر پروٹین۔۔۔ معدنی اجزائ۔۔۔ شکر ۔۔۔کیلشیم۔۔۔ فاسفورس۔۔۔ پائے جاتے ہیں۔
دونوں انجیر یعنی خشک۔۔۔ اور تر ۔۔۔ میں وٹامن " A " اور " C" کافی مقدار میں ہوتے ہیں۔۔۔ وٹامن" B" اور "D" قلیل مقدار میں ہوتے ہیں۔۔۔ ان اجزاء کے پیش نظر انجیر ایک مفید غذائی دوا کی حیثیت رکھتا ہے۔۔۔ اس لئے عام کمزوری۔۔۔ اور۔۔۔ بخار میں اس کا استعمال اچھے نتائج کا حامل ہوگا۔۔۔۔۔
  کمر میں درد ہو تو انجیر کے تین چار دانے روزانہ کھانے  سے درد سے نجات مل جاتی ہے۔

Wednesday 9 April 2014

گرمیوں کی سبزیاں آپ کے صحت کی محافظ

موسم گرما کی سبزیوں میں بھنڈی، سبز مرچ، شملہ مرچ اور کریلہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ شملہ مرچ موسم گرما کی اہم سبزیوں میں شمار ہوتی ہے جس کی کاشت کیلئے معتدل اور مرطوب آب و ہوا موزوں رہتی ہے۔ پھل لگنے کے دوران اگر درجہ حرارت ۳۲ سینٹی گریڈ سے بڑھ جائے اور ہوا میں رطوبت بھی کم ہو تو شملہ مرچ کا پودا پھل دینا بند کردیتا ہے اور اگر دن کا درجہ حرارت ۱۶ درجہ سینٹی گریڈ سے کم ہو تو بھی پھل نہیں آتا۔ کم درجہ حرارت کی صورت میں شملہ مرچ کے پودے پر آنے والا پھل بہت چھوٹاا ور بیج کے بغیر ہوتا ہے جبکہ زیادہ درجہ حرارت کی صورت میں بھی بیج اچھا نہیں بنتا۔ پنجاب کے میدانی علاقوں میں شملہ مرچ کا بیج بطور پنیری اکتوبر کے وسط سے آخر تک بویا جاتا ہے اور اسے فروری کے وسط میں، جب کہر کا خطرہ نہ ہو، کھیت میں لگا دیا جاتا ہے۔

شملہ مرچ کی فصل مئی اور جون میں اچھی پیداوار دیتی ہے لیکن جولائی میں درجہ حرارت بڑھ جانے سے پھل کم لگتا ہے اور پودے وائرس کی بیماری ’’موزیک‘‘ کا شکارہوجاتے ہیں، جبکہ پھل بھی بہت چھوٹا لگتا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں شملہ مرچ کا بیج مارچ اور اپریل میں بطور پنیری بویا جاتا ہے اور پودے مئی کے دوران کھیت میں منتقل کئے جاتے ہیں جس کے بعد پھل اگست یا ستمبر میں حاصل ہوتا ہے۔ شملہ مرچ کی کاشت کیلئے بہت زرخیز میرا زمین، جس میں پانی کا نکاس اچھا ہو، بہتر رہتی ہے۔ زمین نامیاتی مادوں سے بھر پور ہونی چاہئے تاکہ یہ اپنے اندر پانی کو دیر تک قائم رکھ سکے۔ کاشت سے پہلے کھیت میں ایک بار مٹی پلٹنے والا ہل چلائیں اور زمین کو اچھی طرح ہموار کر لیں۔ ہموار زمین پر ۱۵ سے ۲۰ ٹن گوبر کی گلی سڑی کھاد فی ایکڑ ڈالیں اور ہل چلا کر زمین میں ملا دیں، جس سے کچھ عرصہ بعد کھیت میں جڑی بوٹیاں اگ آئیں گی۔ اس وقت کھیت میں ۲ بار ہل چلائیں اور فی ایکڑ ۳ بوری سپر فاسفیٹ اور ایک بوری امونیم نائٹریٹ ڈالنے کے بعد کھیت میں سہاگہ چلادیں۔

شملہ مرچ کے پودے لگانے کیلئے ڈھائی فٹ کے فاصلہ پر پٹریاں شرقاً غرباً بنائیں اور پٹریوں کے بعد ایک پٹری پر ڈھانچہ یا جنتر لگائیں۔ یہ نہ صرف مئی اور جون میں فصل کو سخت گرمی اور لو کے نقصان دہ اثرات سے بچائے گا بلکہ سخت آندھی کی صورت میں بھی پودوں کو ٹوٹنے سے محفوظ رکھے گا۔ اس کے علاوہ جنتر لگانے سے کھیت میں ہلکا سایہ ہونے کے باعث درجہ حرارت بھی کم رہے گا جس سے پودوں کی نشوونما بہتر رہے گی۔ شملہ مرچ یا پہاڑی مرچ کو سرخ مرچ کی نسبت پانی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، اسلئے ہر ۵ یا ۶ روز کے وقفہ سے آبپاشی کرتے رہیں۔ آب پاشی کے بعد کھیت میں زیادہ دیر تک پانی کھڑا نہیں رہنا چاہئے۔ گرمیوں کے موسم میں آبپاشی شام کے وقت یا رات کے دوران کی جائے تو بہتر ہوگا۔ کھیت میں خودرو پودوں اور جڑی بوٹیوں کو تلف کرنے کیلئے ۳ سے ۴ مرتبہ گوڈی کریں اور ہر بار گوڈی کرتے ہوئے پودوں پر مٹی چڑھاتے رہیں۔ شملہ مرچ کے پودے کھیت میں منتقل کرنے کے ایک ماہ بعد فی ایکڑ ۵۰ کلو گرام امونیم نائٹریٹ یا ۲۵ کلو گرام یوریا کھاد ڈالیں اور آبپاشی کر دیں۔ جب پھل اترنا شروع ہو تو ۳ چنائیوں کے بعد پھر فی ایکڑ ۵۰ کلو گرام امونیم نائٹریٹ ۲۵ کلو گرام یوریا کھاد ڈالیں اور آبپاشی کر دیں، جس سے پیداوار میں نمایاں اضافہ ہو جاتا ہے۔ شملہ مرچ کی کاشت کے لئے مارکیٹ میں زیادہ پیداوار کی حامل ہائبرڈ اقسام دستیاب ہیں۔

کریلا موسم گرما کی ایک اہم اور غذائیت سے بھرپور سبزی ہے، جس کی کاشت کیلئے معتدل آب و ہوا موزوں قرار دی جاتی ہے ۔ پنجاب میں اس کی کاشت عموماً فروری سے جولائی تک ہوتی رہتی ہے اور اس کے بیج کے اگاؤ کیلئے ۲۵ سے ۳۰ ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پنجاب کے وسطی اور جنوبی اضلاع فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ، جھنگ، رحیم یار خان، بہاولپور، بہاولنگر، ملتان، اور وہاڑی کریلے کی کاشت کیلئے موزوں ہیں، جبکہ صوبہ کے شمالی اضلاع شیخوپورہ، لاہور، گوجرانوالہ، گجرات، اوکاڑہ اور حافظ آباد کریلہ اور اسکے بیج پیداکرنے کیلئے موزوں ہیں۔

کریلے کی کاشت کیلئے ایسی زرخیز میرا زمین بہتر قرار دی جاتی ہے جس کی تیزابی خاصیت یعنی پی ایچ ۷ یا اس سے کم ہو اور جس میں پانی کی نکاسھ اچھی ہو۔ زمین میں نامیاتی مادہ کی مقدار میں مناسب اضافہ کیلئے فصل کاشت کرنے سے کم از کم ایک ماہ پہلے فی ایکڑ ۱۰ سے ۱۲ ٹن گوبر کی گلی سڑی کھاد ڈال کر مٹی پلٹنے والا ہل چلائیں، تاکہ زمین زیادہ گہرائی تک اکھیڑی جا سکے اور اگر پہلے سے کوئی فصل کاشت کی گئی ہو تو اس کی باقیات جڑوں سے اکھڑ کر گل جائیں اور نامیاتی مادوں میں اضافہ کا سبب بن سکیں۔

کریلے کی کاشت کیلئے کھیت کو ہموار کرنے کے بعد کیاریوں میں تقسیم کرلیں اور راؤنی کر دیں۔ وتر آنے پر ۲ یا ۳ مرتبہ سہاگہ چلا کر زمین کو اچھی طرح نرم اور بھربھرا کرلیں۔ داب کے طریقے سے جڑی بوٹیوں کو تلف کرنے کیلئے زمین کو چند دن تک چھوڑ دیں۔ اس کیلئے ’’فیصل آباد لانگ‘‘ محکمہ زراعت کی سفارش کردہ قسم ہے جسے ترجیح دینی چاہئے۔ اس قسم کے پودوں کا رنگ ہلکا سبز ہوتا ہے اور یہ فصل جلد پک کر تیار ہو جاتی ہے۔ کریلے کی فصل وسط فروری سے اپریل تک بوئی جاتی ہے اور مئی سے ستمبر تک پھل دیتی ہے۔ پچھیتی فصل جون یا جولائی میں کاشت کی جاسکتی ہے اور اسکا پھل اگست سے نومبر تک حاصل ہوتا ہے۔

کریلے کے بیج کی شرح کا دارومدار اس کی قسم پر ہوتا ہے۔ اچھی روئیدگی والا بیج ۲ سے ڈھائی کلوگرام فی ایکڑ کافی ہوتا ہے۔ اگر بیج کی روئیدگی خاطر خواہ نہ ہو تو پھر ساڑھے ۳ سے ساڑھے ۴ کلوگرام فی ایکڑ شرح بیج مناسب ہوتی ہے۔ کریلے کی بوائی کے وقت فی ایکڑ ۳ بوری سنگل سپر فاسفیٹ، ایک بوری امونیم نائٹریٹ اور ایک بوری پوٹاش ڈالیں۔ پھول آنے پر فی ایکڑ آدھی بوری یوریا کھاد استعمال کریں۔ پھل آنے پر ۳ چنائیوں کے بعد فی ایکڑ آدھی بوری یوریا ڈالتے رہیں۔ کریلے کی فصل کیلئے تیار شدہ زمین پر ڈھائی میٹر کے فاصلے پر لگائے ہوئے نشانوں کے دونوں طرف اسی تناسب سے کھاد بکھیر دیں اور پھر آدھا میٹر چوڑی پٹریاں بنائیں۔ پٹریوں کے دونوں اطراف کناروں پر تقریباً ۴۵ سینٹی میٹر کے فاصلے پر ۲ سے ۳ بیج ۳ سینٹی میٹر گہرائی میں بوئیں اور کھیت کی آبپاشی کر دیں۔ بیج کو کاشت سے پہلے بیج پر پھپھوند کش زہر بحساب ۲ سے ۳ گرام فی کلوگرام لگائیں۔

کریلے کی فصل کیلئے پہلی آبپاشی کاشت کے فوراً بعد کریں اس کے بعد ہفتہ وار آبپاشی کرتے رہیں۔ جب موسم گرم ہوجائے تو آبپاشی ۴ دن کے وقفہ سے یا ضرورت کے مطابق کریں۔ کریلہ چونکہ موسم گرما کی فصل ہے اس لئے اس کی آبپاشی میں غفلت نہیں برتنی چاہئے۔ جتنی زمین ٹھنڈی رہے گی اتنے ہی پھول زیادہ آئیں گے اور پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ ماہرین کے مطابق اگر کریلے کا بیج ۱۲ گھنٹے تک پانی میں بھگو کر کاشت کیا جائے تو دوسری آبپاشی پر ہی ۱۰۰ فیصد اگاؤ ہوجاتا ہے۔ جب فصل اگ جائے اور ۳ پتے نکال لے تو چھدرائی کرکے ہر جگہ صحتمند پودا چھوڑ کر فالتو پودے نکال دیں۔ جڑی بوٹیوں کی تلفی کے لئے گوڈی کریں اور اس دوران پودوں پر مٹی بھی چڑھا دیں۔ کریلے کی فصل کو جڑی بوٹیوں سے پاک رکھنے کیلئے جب بھی ضرورت ہو گوڈی ضرور کریں، ورنہ پیداوار متاثر ہو گی۔