Saturday, 14 December 2013

سبزیوں کی خصوصیت اور غذائی اہمیت

سبزیات انسانی غذا میں بہت اہم مقام رکھتی ہیں کیونکہ ان میں وہ تمام اجزاءپائے جاتے ہیں جو اکثر اجناس میں بہت قلیل مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ سبزیات میں لحمیات، حیاتین اور معدنی اجزاءبکثرت پائے جات ہیں جو انسانی جسم میں مختلف افعال کو درست رکھنے میں معاون ہوتے ہیں۔ سبزیوں کا استعمال براہ راست سلاد کی شکل میں یا ابال کر یا ہنڈیا میں پکا کر یا کچھ سبزیات مصالحہ جات کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں جن سے نہ صرف خوراک کو خوش ذائقہ بنایا جا سکتا ہے بلکہ ان کی غذائی اور طبی اہمیت بھی مسلمہ ہے۔ سبزیات میں موجود کچھ اجزاءجسم میں بیماری کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرتے ہیں،ہمارے جسم کی نشوونما اور بڑھوتری میں معاون ہوتے ہیںاور انسانوں کو مختلف بیماریوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔ سائنسدان سبزیوں کو حفاظتی خوراک (Protective Food) کا نام دیتے ہیں کیونکہ ان کا مناسب مقدار میں باقاعدہ استعمال انسان کو مختلف بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ خوراک میں سبزیوں کے کم استعمال کی وجہ سے جسم میں خون کی کمی ہو جاتی ہے۔ سبز پتوں والی سبزیوں (پالک، سرسوں کا ساگ اور میتھی) میں معدنی نمکیات لوہا، چونا اور فاسفورس کافی مقدار میں موجود ہوتے ہیں جو جسم میں خون کی کمی، ہڈیوں اور دانتوں کی کمزوری کو دور کرتے ہیں۔ کچھ سبزیوں (پیاز اور لہسن) میں ایسے کیمیائی مرکبات موجود ہوتے ہیں جو شریانوںمیں فالتو چربی کو جمنے نہیں دیتے اور اسے تحلیل کرنے کی قدرتی صلاحیت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے انسان دل کی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔سبزیاں زود ہضم اور ریشہ دار ہونے کی وجہ سے انسانی جسم سے تمام فاسد مادوں کو نکال باہر کرتی ہیں۔

 پاکستان میں کل کاشتہ رقبہ کے 2.8 فیصد رقبہ پر سبزیات کاشت کی جاتی ہیں۔ سبزیوں کے کل کاشتہ رقبہ کا 50 فیصد او رپیداوار کا 60 فیصد پنجاب سے حاصل ہوتا ہے۔ پنجاب میں 36 سبزیات موسم گرما و سرما میں کاشت کی جاتی ہیں۔ سردیوں کی سبزیوں میں گاجر، مولی، شلجم، میتھی، پالک، سرسوں، پھول گوبھی، بند گوبھی، مٹر، آلو، ادرک اور لہسن وغیرہ جبکہ گرمیوں کی سبزیوں میں کدو، ٹینڈا، کریلا، بھنڈی، بینگن ، بعض سبزیوں (آلو، شکرقندی، کچالو) میں نشاستہ کافی مقدار میں پایا جاتا ہے اور یہ سبزیاں دیگر اجناس خوردنی مثلاً گندم، مکئی اور چاول وغیرہ کی نسبت پیداوار بھی زیادہ دیتی ہیں۔ اسی بناءپر ان سبزیوں کا استعمال بڑھا کر ہم گندم، مکئی او ر چاول کے استعمال کو کم اور خوراک کی کمی کے مسئلہ کو آسانی سے حل کر سکتے ہیں۔سبزیوں کی برداشت کے دوران یا بعد میں کاشتکاروں،دوکانداروں اور گھروں میں سبزی پکانے والوں کی لا علمی کی وجہ سے سبزیات کی بہت ساری غذائیت ضائع ہو جاتی ہے۔ اس لئے ہر ممکن کوشش کریں کہ کھانے کے وقت تک سبزیوں میں زیادہ سے زیادہ غذائیت برقرار رہے تاکہ ہم سبزی کے صحیح ذائقہ سے لطف اندوز ہو سکیں اور سبزی کی دیگر تمام خوبیوں کا فائدہ اٹھا سکیں۔
سبزیوں کی غذائیت برقرار رکھنے کےلئے سبزیوں کی مختلف نقصان رساں کیڑوں اور بیماریوں کے حملہ سے بروقت بچائیں تاکہ سبزیوں کی پیداوار بھی متاثر نہ ہو اور غذائیت بھی برقرار رہے۔کیڑوں اور بیماریوں کے انسداد کےلئے نئی تحقیق شدہ جدید دوائیں استعمال کریں۔ ایسی زہروں کا استعمال کریں جن کا اثر 24 گھنٹے سے زائد نہ ہو۔ سپرے شدہ سبزیوں کواچھی طرح دھو کر استعمال کریں۔ کھیرا، تر ککڑی، ماہڑو، سبز ٹینڈی، مٹر، ٹینڈہ، بھنڈی، توری، کریلا اور کدو وغیرہ کو بروقت برداشت کریں۔ سبزیات کی برداشت شام کے وقت کریں۔سبزیوں کو پتوں اور چھلکوں سمیت پکائیں کیونکہ بعض سبزیوں کے پتوں اور چھلکوں میں لحمیاتی اجزاءاور حیاتین سبزی سے تین سے چار گنا زیادہ موجود ہوتے ہیں۔ سبزیوں کو اپنے ہی پانی میں ہلکی آنچ پر پکائیں اور پکنے کے دوران سبزی کو چمچے سے زیاد نہ ہلائیں کیونکہ اس طرح حیاتین کی مقدار ضائع ہو جاتی ہے ۔ سبزی پکانے والے برتن کو قلعی شدہ اور صاف ستھرا رکھیں اور سبزی پکاتے وقت میٹھے سوڈے کا استعمال نہ کریں اس سے سبزیوں کی غذائیت متاثر ہوتی ہے ۔ کاشتکاروں اور گھریلو خواتین کو چاہئے کہ وہ جدید زرعی سفارشات پر عمل کر کے سبزیات میں موجود غذائی اجزاءکو برقرار رکھیں اور اپنی روز مرہ خوراک میں غذائیت سے بھر پور سبزیات کے استعمال کو بڑھائیں۔

Thursday, 5 December 2013

گھر میں کیمیکلز سے پاک سبزیاں اگائیں

جس طرح سزیوں کی قیمتیں بلند ہو رہی ہیں تو آپ آپنے ہوصلے کو بھی بلند کرتے ہوئے گھر میں سبزیوں کو اگانے کا آغاز کریں تاکہ تازہ اور کیمیکلز سے پاک سبزیاں آپ کے گھر والوں کو نصیب ہوں اور آپ اور آپ کے گھر والے مختلف بیماریوں سے محفوظ رہیں۔اس کا آغاز چند اینٹوں کی کیاری بنا کر بھی آپ کرسکتے ہیں۔ نرسری سے بنے بنائے گملے خرید کر بھی گھریلو باغبانی کر سکتے ہیں۔ آپنے بچوں میں بھی شوق پیدا کرنے کیلئے مختلف گملوں کے نام آپ آپنے بچوں کے ناموں سے منصوب کرسکتے ہیں اسطرح بچوں میں صحت مندانہ مقابلے کا رجہان پیدہ ہوگا اور پودوں،سبزیوں، کی کیاریوں کی حفاظت بھی بھتر طریقے سے ممکن ہوگی۔

Wednesday, 4 December 2013

گھریلو پودوں کے لئے کھاد اپنے گھر پر تیار کیجیئے,


اکثر دوستوں کو شکوہ ہے کہ جب پودے نرسری سے خریدیں تو بڑے لش پش گرین اور خوبصورت ہوتے ہیں مگر گھرآ کر چند ہی دنوں میں اپنا رنگ و روپ کھونا شروع کر دیتے ہیں۔اور صدیوں پرانے معلوم ہوتے ہیں، نرسریوں  میں تو انہیں ترو تازہ رکھنے کے لئے مختلف قسم کی کھادوں اور کیمیکلز کا استعمال کیا  جاتا ہے مگر آپ گھر پر بھی بآ سانی قدرتی کھا د تیار کرکے اپنے پودوں کی بڑھوتی اور خوبصورتی میں اضافہ کر سکتے ہیں کیونکہ پانی کے ساتھ ساتھ چند اور اجزاء بھی ان کی صحت کے لئے ضروری ہیں جو آپ باآسانی گھر پر بھی تیار کرسکتے ہیں۔ گھر میں روزانہ انواع قسم کو کوڑا کرکٹ جمع ہوتا ہے.
جسے ضائع کرنا ایک بڑا مسلہ ہے مگر آپ اس کے ایک بڑے حصہ کو قابل استعمال لا سکتے ہیں۔ سبزیوں اور پھلوں کے چھلکے،انڈوں کے خالی خول ، گلی سڑی سبزیاں اور پھل،چائے کی استعمال شدہ پتی، بچے کھچے کھانے ،درختوں کے پتے ، کھاس پھونس،مرغیوں  اور پرندوں کی بیٹ اور گوبر وغیرہ ہر گھر میں دستیاب ہیں ۔ اگر گھر میں جگہ ہے تو لان کے کونے میں ایک گڑھا کھود کر پتّوں اور سبزیوں کے چھلکوں کو جمع کرتے جائیں۔ گڑھا جب پتّوں سے بھر جائے تو اس پر مٹی کی کم از کم چھ انچ موٹی تہہ لگا دیں اور اوپر سے پانی ڈالیں تاکہ مٹی کی نمی قائم رہ سکے۔ زیادہ پانی نہ ڈالیں کیونکہ اس طرح سے کھاد خراب ہوجائے گی۔ تین سے چار مہینے میں یہ کھاد تیار ہوجائے گی۔ یہ جانچنے کے لیے کہ آیا کھاد تیار ہے کہ نہیں، درست طریقہ یہ ہے کہ آپ کھاد والے گڑھے کو کھود کر دیکھیں کہ ان چیزوں کی جن کے ذریعے کھاد بنائی جارہی ہے، رنگت تبدیل ہوئی ہے یا نہیں۔ ان کی بدبو ختم ہوئی ہے یا ابھی باقی ہے۔ یہ بھربھری ہوئی ہے یا نہیں۔ اگریہ تینوں علامات ان میں نظر آجائیں یعنی کہ ان چیزوں کی اصل مہک ختم ہوجائے، اصل رنگت تبدیل ہوجائے اور وہ بھربھری ہوجائے تو پھر سمجھیں کہ کھاد تیار ہے، ورنہ کچھ دن اور انتظار کریں۔ یہ کھاد پھلواری کے لیے بہت موزوں ہے کیونکہ اس میں اتنی تیزی نہیں ہوتی، اور یہ موسمی پھولوں کے لیے بہترین ہے۔

Thursday, 24 October 2013

کریلا اور گھیا کدو کے فواید

کریلا


*Momordica charantia*

کریلاجس کا حیاتیاتی نام: Momordica charantia) ہے
کریلا موسم گرما کی ایک اہم اور مقبول ترین سبزی ہے۔ کریلا اپنی طبعی خصوصیات کی بناءپر بہت افادیت کا حامل ہے۔ یہ مختلف بیماریوں مثلاً نظام انہظام کی خرابی، ملیریا، چکن پاکس، زیابیطس اور کینسر جیسی مہلک بیماریوں کے خلاف جسم میں قوت مدافعت بڑھاتا ہے۔ کریلا پنجاب کے قریباً تمام اضلاع میں کاشت کیا جاتا ہے۔ 2011-12کے دوران پنجاب میں کریلا 992ایکڑ رقبہ پر کاشت کیا گیا اور اس سے 117من فی ایکڑ کی اوسط پیداوار سے مجموعی طور پر تقریباً 44ملین ٹن پیداوار ریکارڈ کی گئی۔ معتدل آب و ہوا کریلے کی کاشت کے لیے موزوں ہے ۔ پنجاب میں اس کی کاشت عموماً فروری سے جولائی تک ہوتی رہتی ہے۔ اسکے بیج کے اگاو کیلئے 30-25 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پنجاب کے وسطی اور جنوبی اضلاع فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ، جھنگ، رحیم یار خان، بہاولپور، بہاولنگر، ملتان، اور وہاڑی سبز کریلے کیلئے موزوں ہیں۔ جبکہ پنجاب کے شمالی اضلاع شیخوپورہ، لاہور، گوجرانوالہ، گجرات، اوکاڑہ اور حافظ آباد سبز کریلے اور بیج پیداکرنے کیلئے موزوں ہیں۔کریلے کی کاشت کیلئے زرخیز میرا زمین جس کی تیزابی خا صیت 7یا اس سے کم ہو اور جس میں پانی کا نکاس اچھا ہوبہترین ہے۔ زمین میں نامیاتی مادہ کی مقدار میں مناسب اضافہ کیلئے فصل کاشت کرنے سے کم از کم ایک ماہ قبل10تا 12 ٹن فی ایکڑ کے حساب سے گوبر کی گلی سڑی کھاد ڈال کر مٹی پلٹنے والا ہل چلائیں تاکہ زمین زیادہ گہرائی تک نرم جا سکے اور اگر پہلے سے کوئی فصل کاشت کی گئی ہو تو اُسکے مڈھ جڑوں سے اُکھڑ جائیں اور گل جانے پر نامیاتی مادے میں اضافہ کا سبب بن سکیں۔ کھیت کو ہموار کرکے کیاریوں میں تقسیم کر لیں اور راونی کردیں۔ وتر آنے پر دو یا تین بار سہاگہ چلا کر زمین کو اچھی طرح نرم اور بُھر بُھرا کر لیں۔ داب کے طریقے سے جڑی بوٹیوں کو تلف کرنے کیلئے چند دن کیلئے چھوڑ دیں۔”فیصل آباد لانگ“ محکمہ کی سفارش کردہ قسم ہے اور اسی کو ترجیح دینی چاہیے۔ اس قسم کے پودوں کا رنگ ہلکا سبز ہوتا ہے اور یہ قسم جلد پک کر تیار ہو جاتی ہے۔ کریلے کی کاشت وسط فروری سے اپریل تک کی جاتی ہے اور یہ مئی سے ستمبر تک پھل دیتی ہے۔پچھیتی فصل جون ، جولائی میں کاشت کی جاتی ہے اور اس فصل کا پھل عموماً اگست سے نومبر تک حاصل ہوتا ہے۔بیج کی شرح کا دارومدار قسم کے اگاوپر ہوتا ہے۔اچھی روئیدگی والا 2.0 تا2.5 کلوگرام بیج فی ایکڑ کافی ہوتا ہے۔ اگر بیج کی روئیدگی اتنی خاطر خواہ نہ ہو تو پھر 4.5-3.5 کلوگرام فی ایکڑ شرح بیج مناسب ہوتی ہے۔کریلے کی بوائی کے وقت 3بوری سنگل سپر فاسفیٹ ، ایک بوری امونیم نائٹریٹ اور ایک بوری پوٹاش فی ایکڑ ڈالیں۔ پھُول آنے پر آدھی بوری یوریا فی ایکڑ استعمال کریں۔ بعدازاں ہرتین چنائیوںکے بعد آدھی بوری یوریا فی ایکڑ ڈالتے رہیں۔تیار شدہ زمین پر 2.5میٹر پر لگے ہوئے نشانوں کے دونوں طرف مندرجہ بالا تناسب سے کھاد بکھیر دیں اور بعد میں پٹڑیاں بنائیں۔ پٹڑیوں کی نالیاں½ میٹر چوڑی رکھیں۔پٹریوں کے دونوں طرف کناروں پر تقریباً 45سینٹی میٹر کے فاصلے پر دو سے تین بیج 3سینٹی میٹر گہرے بوئیں اور کھیت کی آبپاشی کر دیں۔ بیج کو کاشت سے پہلے پھپھوندکش دوائی بحساب 3-2گرام فی کلوگرام بیج لگائیں۔پہلی آبپاشی کاشت کے فوراً بعد کریں اس کے بعد ہفتہ وار آبپاشی کرتے رہیں۔ جب موسم گرم ہو جائے تو آبپاشی چار دن کے وقفہ سے کریں یا پھر ضرورت کے مطابق کریں۔ چونکہ کریلے کی فصل موسم گرما کی فصل ہے اس لئے اس کی آبپاشی کے سلسلہ میں غفلت نہیں برتنی چاہیے جتنی زمین ٹھنڈی رہے گی اتنے ہی پھول زیادہ آئیں گے اور پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ تجربات سے پتہ چلا ہے کہ اگر بیج 12گھنٹے پانی میں بھگو کر کاشت کیا جائے تو دوسری آبپاشی پرہی سو فیصد اگاوہو جاتا ہے۔جب فصل اُگ جائے اور تین پتے نکال لے تو چھدرائی کرکے ہر جگہ صحت مند پودا چھوڑ کر فالتو پودے نکال دیں۔ جڑی بوٹیوں کی تلفی کے لئے گوڈی کریں۔ پودوں کو مٹی بھی چڑھا دیں۔فصل کو جڑی بوٹیوں سے صاف رکھنے کیلئے جب بھی ضرورت ہو گوڈی ضرور کرلیں ورنہ پیداوار متاثر ہو گی۔

گھیا کدو
گھیا کدو موسم گرما کی ایک اہم اور انتہائی مفید سبزی ہے۔ پاکستان میں وسیع رقبہ پر کاشت کیا جاتا ہے۔ پنجاب کے مختلف اضلاع میں کاشت کیا جاتا ہے ۔پنجاب میں 2011-12کے دوران گھیا کدو 5504ایکڑ رقبہ پر کاشت کیا گیاع جبکہ پیداوار 27842ملین ٹن ریکارڈ کی گئی۔ گھیا کدو کی اوسط پیداوار تقریباً 136ملین ٹن فی ایکڑ ہے۔ غذائی اعتبار سے گھیا کدو میں نشاستہ، چکنائی، کیلشیم، آئرن، فاسفورس اور حیاتین کے اجزاءپائے جاتے ہیں۔ گھیا کدو کی تاثیر ٹھنڈی ہوتی ہے اور یہ شوگر، بلڈپریشر، دل، جگر، پھیپھڑوں، کھانسی اور دمہ کے امراض کو کنٹرول کرنے میں بہت مفید ہے۔ میدانی علاقوں میں عام طور پر گھیا کدو کی تےن فصلےں کاشت کی جاتی ہےں۔ پہلی فصل فروری/مارچ ، دوسری جولا ئی/ اگست میں جبکہ تےسری فصل اکتوبر کے آ خر ےا نومبر کے شروع مےں کاشت کی جاتی ہے۔ اکتوبر نومبر میں کاشت ہونے والی فصل کو کہر کے اثر سے محفو ظ کرنے کے لیے سرکنڈے وغےرہ کے چھپر استعمال کیے جاتے ہےں۔ اس کے علاوہ پہا ڑوں پر اس کی کاشت اپرےل اور مئی مےں کی جاتی ہے۔اسکی عام طور پر دو اقسام کاشت کی جاتی ہیں۔ ایک قسم گول اور دوسری لمبی ہوتی ہے جسے لوکی بھی کہتے ہےںجو زیادہ ترپہاڑی علاقوں میں کاشت کی جاتی ہے۔ ترقی دادہ اقسام مےں فےصل آباد گول زےادہ پےداوار دےنے والی قسم ہے۔اچھی روئیدگی والا دو سے اڑھائی کلوگرام بیج ایک ایکڑکے لیے کافی ہوتا ہے۔زرخیز میرا زمین جس میں نامیاتی مادہ وافر مقدار میں موجود ہو اور پانی دیر تک جذب رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہو موزوں ہے۔ تھور اور سےم زدہ زمےنو ں مےں اسے کاشت نہےں کرنا چا ہئے۔بوائی سے ایک ماہ پہلے 10سے15ٹن گوبر کی گلی سڑی کھاد ڈال کر زمےن مےں اچھی طرح ملا دیں اوربعدمیں کچی راونی کردیں وتر آنے پر زمین میں ہل اورسہاگہ چلائیں۔ اس طرح کھیت میں موجود جڑی بوٹیوں کے بیج اُگ آئیں گے جو کاشت کے وقت زمین کی تیاری کے دوران آسانی سے تلف کیے جاسکتے ہیں۔ بوائی کے وقت تین سے چاربار ہل اور سہاگہ چلائیں تاکہ زمین نرم اور بھربھری ہو جائے۔ زمین کا ہموار ہونا بہت ضروری ہے۔ زمین کی تیاری کے بعد کھیت میں 3 سے4میٹر کے فاصلے پر ڈوری سے نشان لگائیں اور ان نشانوں کے دونوں اطراف چار بوری سنگل سپر فاسفیٹ ، ایک بوری امونیم سلفیٹ اور ایک بوری پوٹاش ےا ڈیڑھ بوری ڈی اے پی اور ایک بوری پوٹاش فی ایکڑ ملا کر ڈال دیں۔ بعد ازاں نشانوں سے مٹی اٹھا کر پٹڑیاں بنائیں ۔ اس بات کا خاص طور پر خیال کریں کہ پٹڑیوں کے درمیان والی نالی 40 سے50 سینٹی میٹر چوڑی اور 20 سے 25 سینٹی میٹر گہری ہو۔ اس طرح زمین کاشت کیلئے تیار ہو جاتی ہے۔پٹڑی کے دونوںکناروں پر50-40سینٹی میٹر کے فاصلہ پر دو دو بیج مناسب گہرائی پر بذریعہ چوکا لگائیں۔ اگر کاشت سے 10-8 گھنٹے قبل بیج کو پانی میں بھگو دیں تو اسکا اگاوبہت اچھا ہو جاتا ہے۔ پہلا پانی کاشت کے فوراً بعد لگا دیا جائے اور خیال رکھیں کہ پانی بیج کی سطح سے اوپر نہ جائے وگرنہ کرنڈ کی وجہ سے بیج کا اُگا ومتاثر ہوگا۔ اگر آبپاشی شام کے وقت ہو تو اس کا بہت فائدہ ہوتا ہے اس کے بعد ایک ہفتہ کے وقفہ سے آبپاشی کرتے رہیں۔ بارش ہونے کی صورت میں آبپاشی کا دورانیہ بڑھایا جا سکتا ہے۔ اُگنے کے بعد جب فصل تین چا ر پتے نکال لے تو ہر جگہ ایک صحت مند پودا چھوڑ کر باقی پودے نکال دیں۔فصل کو جڑی بوٹیوں سے پاک رکھنے کیلئے مختلف اوقات میں تین چار مرتبہ گوڈی کریں۔ ہر تیسری یا چوتھی چنائی کے بعدایک بوری امونیم نائٹریٹ یا آدھی بوری یوریا نالیوں میں بکھیر کر گوڈی کرنے اور مٹی پودوں کی جڑوں کے ساتھ لگاکر آبپاشی کرنے سے پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہو جاتاہے۔

 موسم گرما کی سبزیاں کاشت کرکے کاشتکار معاشی استحکام کےحصول کو ممکن بنا سکتے ہیں کیونکہ سبزیوں کی قیمت دیگر فصلات کی نسبت زیادہ ملتی ہے اور جلد پیداوار حاصل ہونے سے فصل کے کاشتی دیکھ بھال کے اخراجات بھی ساتھ ساتھ پورے کئے جا سکتے ہیں۔
اس مضمون کی تیاری میں تحقیقاتی کتب کی مدد لی گئی تاکہ عوام الناس کو فائدہ حاصل ہو۔

Friday, 11 October 2013

ٹماٹر آپ کامعالج بھی ہے


ٹماٹر ویسے تو ایک عام اور معصوم سبزی میں استمال ھونے والا پھل ھے۔جی ہاں ٹماٹر ایک پھل جو روز ہم کسی نہ کسی طریقہ سے کھاتے ہیں۔آج ٹماٹر کی خصوصیات کا زکر کرتے ہیں۔جن سے آکسرھم واقف نہیں، یونیورسٹی آف کیلوفرنیا کی تحقیق کے مطابق ٹماٹر کینسر جیسے موزی مرض میں نہایت مفید ھے۔ٹماٹر انٹی اکسیڈ ینٹ بھی ھے اگراللہ نہ کرے کسی کا اکسیڈ ینٹ ھو جائے تو اسے ٹماٹر کا جوس کا دیں تو مریض بہت جلد صحت یاب ھوجائے گا۔اس لیئے کہ ان میں وٹامن اے اور وٹامن سی کی بہت اچھی مقدار پائی جاتی ھے۔ خون میں موجود فریریڈیکلزکونیوٹرلائزکرتے ہیں،بصورت دیگریہ خون میں موجود فریریڈیکلزخلیات کونقصان پہنچاسکتے ہیں،
*ٹماٹرکو کچابھی کھانا چاہیےاس لئے کہ اس کو پکانےسے اس میں موجود وٹامن سی کی مقدار ضایع ہوسکتی ہے۔
*ٹماٹر میں ایک خاص قسم کا قدرتی معدن کرومیم بھی پایا جاتاہےجوزیابیطس کےمرض میں مبتلا مریضوں میں بلڈشوگر کو قابو میں رکھتا ہے۔
*ٹماٹرسیگریٹ استمال کرنےوالوں کیلئے بھی بے حد
مفید ہے،
*ٹماٹرمیں موجود وٹامن اےنظر کودرست رکھنے میں بھی معاون ومددگارہے،
*ٹماٹرمیں موجود وٹامن بی بلڈپریشراورکولیسٹرول کی سطح کو کمتر رکھنے میں نہیایت مفید ہے اس لیے کی کہ فالج،دل کے دورے اور دیگر خطرناک مسائل سے بچاکر رکھتا ہے،
*ٹماٹرآپ کی جلد کی حفاظت بھی کرسکتا ہے،اس میں موجود لائیسوپین نامی مادہ جلد کی بہترین حفاظت کرتا ہے۔اسکے لیے آپ یہ بھی کرسکتے ہیں کہ دس بارہ ٹماٹروں کا چھلکے اتار کر چہرے پر بچھادیں یہ عمل آپ دس تا پندرہ منٹ تک جاری رکھے اس کے بعد چہرے کو تازہ پانی سے دھو لیں آپ دیکھ سکتے ہیں اس سے آپ کا چہرہ ترو تازہ اورنکھر جائے گا،
*ٹماٹر بالوں میں سفیدی روکنے میں اور دانتوںاور ہڈیوں کے لیے بھی مفید ہے،
*ٹماٹر اگر کچا اوربیجوں کےبغیر کھایا جائے تو اس سے پتے اور گردے کی پتری کے خطرے کو کم کرتا ہے،
*ٹماٹروں پر متعددتحقیق کے بعد یہ بھی بات سامنے ائی ہے کہ آئسوپین مردوں غدودوں کے کینسر کے خطرے کو کم کرتا ہے،


Thursday, 10 October 2013

بےکار کو کارآمد بنائیں

گھر میں بہت سی بےکار اشیاء ھوتی ہیں جسے آپ تھوڑی توجہ دیکر قابل استمال بنا سکتےہیں۔جس پلاسٹک کی بوتلیں ۔ٹوٹے ہوئے گھی کے ڈ بے اور بہت سی اس سے ملتی جلتی ۔آپنے یہ دیکھنا ھے کہ گھر کا کون سا حصہ باغبانی کیلئے منتخب کیا جاسکتا ھے۔ 

x

Friday, 4 October 2013

سستا مواد کا استعمال کرتے ہوئےگھریلو باغبانی

Indoor Garden Using Inexpensive Materials
سستا مواد کا استعمال کرتے ہوئےگھریلو باغبانی 

Tuesday, 1 October 2013

پودوں سےگھربھی سجایئں اور مچھروں کو بھی بھگائیں

زمانہ قدیم سے یہ حقیقت سبھی جانتے ہیں کہ قدرت نے نیم کے درخت میں بہیت سے طبی، زراعتی اور ماحولیاتی فوائد رکھے ہیں اور انہی فوائد کو جدید تحقیق نے بھی ثابت کیا ہے۔ نیم کے اجزاء کئی ادویات کئے علاوہ دیگر مصنویات بنانے کے بھی کام آتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ نیم کا درخت مچھروں کو بھگانے کا بھی ایک قدرتی ذریعہ ہے۔
نیم کے درخت کے ارد گرد مچھر نہیں ہوتے اور اسی وجہ سے ڈینگی کے خاتمے کیلئے اسے انتہائی کارآمد تصور کیا جاتا ہے۔ نیم کا درخت ماحول پر مثبت طور پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ درخت دن کے اجالے میں دیگر درختوں کے مقابلے میں زیادہ آکسیجن خارج کرتا ہے اور فضا کو وسیع پیمانے میں آلودگی سے صاف رکھتا ہے۔ نیم کی یہی افادیت کوار گندل (ایلو ویرا) میں بھی موجود ہے، جو رات کو وسیع پیمانے پر آکسیجن خارج کرتا ہے جس سے اردگرد کی فضاء آلودگی سے صاف رکھتی ہے۔ مختصر یہ کہ انسانی صحت کے لئے نیم کا درخت اور ایلو ویرا کا پودا قدرت کی بیش بہاء نعمتیں ہیں۔
کیڑے مکوڑوں سے نجات کیلئے استعمال ہونے والے پودوں میں حبشی پودینہ (ہورس منٹ پلانٹ) کی افادیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اس پودے کی خوشبو سے مچھر پریشان ہو کر دور بھاگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حبشی پودینہ کو صدیوں سے مکھی مچھر کو دور رکھنے کے لئے استعمال کیاجا تا ہے۔ اس پودے کو صحن میں لگانے یا کمرہ میں اسکا گملا رکھنے سے مچھر آپ کے قریب نہیں آئے گا۔
گیندے کا پودا یعنی میری گولڈ بھی اپنے بھول کی خوبصورتی اور کیڑے مکوڑوں کو دور رکھنے میں انتہائی معاون ثابت ہوتا ہے۔ گیندے کے پھول کی خوشبو بھی مچھروں کو پسند نہیں، اسلئے مچھروں سے چھٹکارا پانے کے لئے اسے چھوٹے کنٹینرز، گملوں، صحن یا مرکزی دروازے کے دونوں اطراف لگانے سے مچھروں کو گھر میں داخل ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ گلِ مینا کی نسل سے تعلق رکھنے والا سدا بہار کا پودا بھی اپنی خوشبو اور خاموش نیلے اور سفید پھولوں کے باعث مکھی مچھروں کیلئے نفرت انگیز سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مچھر اس پودے کے اردگرد بھی نہیں پھٹکتے۔
اس کے علاوہ گن گھاس یا سیٹرونیلا پلانٹ گھاس کی ایک خوبصورت قسم ہے اور اسے بھی مچھروں سے بچاؤ کیلئے انتہائی کارآمد تصور کیا جاتا ہے۔ یہ پرکشش، تروتازہ اور خوبصودار اونچی گھاس گھریلو باغیچوں میں لگانے سے بھی مچھروں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔
نیلے پھولوں سے سجا سنبل بری یا ’’کیٹنپ‘‘ نامی پودا بھی اسی مقصد کیلئے انتہائی کارآمد تصور کیا جاتا ہے، بلکہ بعض ماہرین نے اسے سب سے زیادہ طاقتور مچھر بھگاؤ پودا قرار دیا ہے اور حالیہ تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سنبل بری مچھروں کے خلاف کیمیاوی اسپرے کے مقابلے میں ۱۰ گنا زیادہ مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس پودے کے بلیوں پر بھی نشہ آور اثرات دیکھے گئے ہیں۔
ان پودوں کے علاوہ کلیل کوہستانی یا روز میری کو بھی تزئین و آرائش کے علاوہ قدرتی طور پر مچھروں کیلئے نفرت انگیز سمجھا جاتا ہے۔ خوبصورت پھولوں سے بھرا یہ پودا خوشبو میں اپنی مثال آپ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دیہی اور شہری علاقوں میں کیڑے مکوڑوں اور خاص طور پر مچھروں سے تحفظ کیلئے اپنی مدد آپ کے تحت ان پودوں کی گھر گھر شجرکاری سے متعلق آگاہی کا پروگرام تشکیل دیا جاسکتا ہے، جس کی مدد سے ڈینگی مچھر اور وائرس سے مستقل چھٹکارا حاصل کرنا ممکن ہے۔ موسم گرما میں مچھروں کی بہتاب ہوتی ہے اور ایسے میں ان پودوں کو زمین یا گملوں میں باآسانی لگایا جاسکتا ہے۔
دوسری جانب فکر انگیز بات یہ ہے کہ حکومت خاص طور پر پنجاب حکومت کیمیاوی اسپرے پر اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود ڈینگی مچھر پر قابو نہیں پا سکی، بلکہ ماہرین کا تو یہ کہنا ہے کہ کیمیاوی اسپرے کی وجہ سے مچھر دشمن اور مچھر خور دیگر حشرات بھی ختم ہورہے ہیں۔ ایسے میں حکومتی سطح پر سڑکوں کے کنارے نیم کے درخت کی شجرکاری کرنے سے ڈینگی مچھر اور وائرس سے مستقل چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔

Monday, 30 September 2013

میں پھول ھوں میری خوشبو تم ھو.میں دل ھوں میری دھڑکن تم ھو

باغبانی ایک جنون ھے جسے آپ محبوب کا نام بھی دے سکتے ہیں،جب تک پھولوں سے محبت نہ کریں گےتو اس وقت تک گھر گل گلزار نہیں بن سکتا۔ 

میں پھول ھوں میری خوشبو تم ھو.میں دل ھوں میری دھڑکن تم ھو.

میں جان ھوں میری روح تم ھو.میں جسم ھوں میری زندگی تم ھو.

میں ساغر ھوں میری ہلچل تم ھو.میں سپنا ھوں میری تعبیر تم ھو.

میں عکس ھوں میری حقیقت تم ھو. میں لب ھوں میری بات تم ھو.میں مکمل تب ھوں جب ساتھ تم ھو....

Sunday, 29 September 2013

جگہ کی کمی شوق کی راہ میں اڑے نہیں آسکتی

اگر آپ کا گھر چھوٹا ھے اور باغبانی بھی کرنا چاہتے ہیں مایوس نہ ھوں گھر کی چھت بھی استمال کی جاسکتی ھے مسال کے طور یہ تصویر دیکھیں۔

Saturday, 28 September 2013

پھول ہماری معاشرت کا حصہ ہیں،

آسان گھریلو باغبانی۔سید فقیراللہ شاہ
اگر کہا جائے کہ ’’وجودِ گل سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘ تو مجھے یقین ہے کہ اکثر لوگ مجھ سے اتفاق کریں گے۔ ذرا سوچیے تو، اگر ہماری دنیا میں یہ پھول بوٹے اور ہریالی نہ ہوتی تو ہماری زندگی کتنی بے رونق اور بدنما ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہر انسان کی جمالیاتی حس کو ناپنے کا پیمانہ ہی بعض اوقات چمن آرائی کو سمجھا جاتا ہے۔ پھول ہماری معاشرت کا حصہ ہیں، کہیں کہیں تو انہیں باقاعدہ صنعت کا درجہ دے دیا گیا ہے، اور کہیں یہ صرف تعلیم دینے کے طور پر استعمال ہورہے ہیں۔ آج کل تو پھولوں کی سجاوٹ اور باغبانی کا علم دینے کے باقاعدہ ادارے وجود میں آچکے ہیں۔ آج کی بھاگ دوڑ کی طرزِ معاشرت اور زمین کی قلت نے باقاعدہ طور پر کسی قطعہ زمین پر باغبانی کے شوق کو کسی حد تک ختم کردیا ہے… لیکن پریشان نہ ہوں، اگر آپ بھی باغبانی کا شوق رکھتے ہیں لیکن زمین کی قلت یا فاضل زمین نہ ہونے سے پریشان ہیں تو فکر کرنا چھوڑ دیں۔ ہم آپ کو ذیل میں مکان، بنگلے یا فلیٹ میں باغیچہ بنانے کے لیے چند ضروری معلومات فراہم کررہے ہیں جن پر عمل کرکے آپ یقینا اپنا شوق پورا کرسکیں گے۔
اگر آپ کے گھر میں باغیچہ ہے یا زمین کا کوئی چھوٹا سا ٹکڑا ہے تو پھر آپ باآسانی اس میں پھلواری پیدا کرسکتے ہیں۔ اس کام کے لیے سب سے ضروری چیز موزوں زمین کا ٹکڑا ہے۔ ایسی زمین، جس میں اگر ملبہ وغیرہ پڑا رہا ہے یا پھر اسے وہیں دبا دیا گیا ہے تو ملبے میں شامل تلف نہ ہونے والی چیزیں کافی تکلیف دہ ہوتی ہیں اور یہ باغیچہ کے پروان چڑھنے میں بھی رکاوٹ ڈالتی ہیں۔ ہم اکثر کہتے ہیں کہ پھلواری لگانے کی تو بہت کوشش کی لیکن زمین ہی خراب ہے یا پانی کھارا ہے وغیرہ وغیرہ۔
آپ اگر باغیچہ بنانے کے خواہش مند ہیں تو سب سے پہلے زمین کی قسم معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ آیا زمین ریتیلی ہے، پتھریلی ہے یا کلر زدہ ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایک گلاس میں تھوڑی سی مٹی ڈال کر اسے پانی میں خوب حل کریں۔ پھر گدلا پانی پھینک دیں، جو ریت گلاس میں نیچے بیٹھی ہوئی ملے گی اُس سے اندازہ کرلیں کہ ریت میں مٹی کی کتنی آمیزش ہے۔ اچھی مٹی میں ریت اور مٹی کی مقدار برابر برابر ہوتی ہے، جس کی وجہ سے پودوں کو جڑوں تک ہوا اور نمی یکساں مقدار میں ملتی رہتی ہے۔
پھلواری لگانے سے پہلے مجوزہ باغیچے کی مٹی تیار کریں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ مٹی میں ریت اور گوبر کی کھاد کو مکس کرکے دو دن تک پڑا رہنے دیں۔ اس کے بعد کیاریوں میں یا گملوں میں یہ ملی جلی مٹی منتقل کرلیں۔ آپ موسمی پھول لگانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے زیادہ موٹی تہہ لگانے کی ضرورت نہیں، کیونکہ موسمی پھول اپنی جڑیں زیادہ سے زیادہ 4 انچ تک ہی پھیلا سکتے ہیں، لیکن اگر آپ سدا بہار یا کسی اور قسم کے پودے اگانا چاہتے ہیں تو پھر مٹی کی تہہ زیادہ موٹی رکھنی پڑے گی۔ اگر آپ ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں کی مٹی چکنی ہے تو پھر مٹی میں بھل ملانا ضروری ہوتا ہے، کیونکہ چکنی مٹی میں جڑیں نشوونما نہیں پا سکتیں۔ اچھی زمین بنانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ آپ کم از کم ایک فٹ تک اس علاقے کو جہاں پھلواری لگانے کا سوچ رہے ہوں، الٹ پلٹ کرتے رہیں تاکہ سورج کی الٹراوائلٹ شعاعوں اور تازہ ہوا سے مٹی میں تبدیلی آسکے۔
آپ نے اگر مجوزہ طریقے سے زمین تیار کرلی ہے تو آپ نہ صرف اس زمین پر باغیچہ بنا سکتے ہیں، بلکہ اگر باغیچہ بنانے کے لحاظ سے زمین کم ہے تو پھر اس مٹی کو گملوں میں بھر کر اس میں بھی پھول کھلا سکتے ہیں۔
اچھی پھلواری اگانے کے لیے دوسری چیز کھاد ہے جو آپ باآسانی گھر پر بھی تیار کرسکتے ہیں۔ اگر جگہ کم ہے تو لان کے کونے میں ایک گڑھا کھود کر پتّوں اور سبزیوں کے چھلکوں کو جمع کرتے جائیں۔ گڑھا کم از کم پانچ فٹ گہرا ضرور ہونا چاہیے۔ خزاں کے موسم میں تو اس گڑھے کو بھرنے میں صرف دو روز ہی لگیں گے۔ گڑھا جب پتّوں سے بھر جائے تو اس پر مٹی کی کم از کم چھ انچ موٹی تہہ لگا دیں اور اوپر سے پانی ڈالیں تاکہ مٹی کی نمی قائم رہ سکے۔ زیادہ پانی نہ ڈالیں کیونکہ اس طرح سے کھاد خراب ہوجائے گی۔ تین سے چار مہینے میں یہ کھاد تیار ہوجائے گی۔ یہ جانچنے کے لیے کہ آیا کھاد تیار ہے کہ نہیں، درست طریقہ یہ ہے کہ آپ کھاد والے گڑھے کو کھود کر دیکھیں کہ ان چیزوں کی جن کے ذریعے کھاد بنائی جارہی ہے، رنگت تبدیل ہوئی ہے یا نہیں۔ ان کی بدبو ختم ہوئی ہے یا ابھی باقی ہے۔ یہ بھربھری ہوئی ہے یا نہیں۔ اگریہ تینوں علامات ان میں نظر آجائیں یعنی کہ ان چیزوں کی اصل مہک ختم ہوجائے، اصل رنگت تبدیل ہوجائے اور وہ بھربھری ہوجائے تو پھر سمجھیں کہ کھاد تیار ہے، ورنہ کچھ دن اور انتظار کریں۔ یہ کھاد پھلواری کے لیے بہت موزوں ہے کیونکہ اس میں اتنی تیزی نہیں ہوتی، اور یہ موسمی پھولوں کے لیے بہترین ہے۔ اگر یہ کھاد میسر نہ آسکے تو پھر گوبر کی کھاد استعمال کریں، لیکن بہت تھوڑی مقدار میں… ورنہ کھاد زیادہ استعمال کرنے سے ننھے منے بیج اور نوزائید پودے ختم ہوجائیں گے۔
زمین کی تیاری، کھاد اور مٹی کی تیاری کے بعد موسمی پھلواری کے لیے ایک اہم عمل یہ بھی ہے کہ جب تک بیج میں سے نوزائیدہ پودے نکل نہ آئیں آپ انہیں تیز دھوپ اور سردی سے بچائیں۔ بیج پر ہلکی سی تہہ ہی کھاد ملی مٹی کی ہو۔ زیادہ گہرائی میں بیج ڈالنے سے بھی بیج خراب ہوجاتا ہے۔ زیادہ اونچائی سے پانی نہ دیں کہ مبادا بیج گہرائی میں چلے جانے کی کوشش کریں۔ فوارے سے پانی دیں تاکہ یکساں پھوار سے پانی پڑے۔
تو یہ تھیں وہ تراکیب جن کی مدد سے آپ بہترین نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر احتیاط کی جائے اور ان عوامل کو نظر میں رکھا جائے تو مجھے امید ہے کہ بہار کے موسم میں آپ کی کیاریاں اور گملے صحیح بہار کا نمونہ پیش کریں گے۔

Monday, 23 September 2013

آسان گھریلو باغبانی : خوشبو بھی علاج بھی

آسان گھریلو باغبانی : خوشبو بھی علاج بھی: باغبانی زندگی کا ایک ایسا حسین حصہ ہے۔ جو آپ کے خیالات واحسات کو خوبصورت تر بناتا ھے پھول کسے اچھے نہیں لگتے اور اگر آپ کو معلوم پڑ جائے...

خوشبو بھی علاج بھی

  • باغبانی زندگی کا ایک ایسا حسین حصہ ہے۔ جو آپ کے خیالات واحسات کو خوبصورت تر بناتا ھے پھول کسے اچھے نہیں لگتے اور اگر آپ کو معلوم پڑ جائے کہ یہ خوبصورت پھول آپ کے بہترین معلج بھی ہیں تو کیسا ھوگا۔

تو میں آج آپ سے کچھ پھولوں کی خوشبو سے علاج کا زکر کروں گا۔مختلف ان کے ذہنی و جسمانی کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے۔ سائنسی ترقی نے جہاں انسان کو ان گنت سہولتیں اور آسائشیں فراہم کی ہیں وہاں ذہنیپھولوں'پھلوں اور ہربز کی خوشبو متعدد بیماریوں سمیت ذہنی امراض خصوصا ذہنی دباؤ کو نمایاں طور پر کم کرتی ہے۔ پھلوں میں لیموں، آم اور مالٹے کی خوشبو ذہنی دبا ؤ و دیگر امراض کی شفایابی میں مدد دیتی ہے ہربز میں پودینہ جبکہ پھولوں میں گلاب کی خوشبو انسدبا ؤ اور نفسیاتی و ذہنی امراض میں بھی انتہائی اضافہ ہوا ہے۔ بعض خوشبوئیں سونگھنے سے ذہنی دباو ذہنی امراض سے تعلق رکھنے والے مخصوص جین متحرک ہوجاتے ہیں اور خون کی کیمسٹری میں ایک مخصوص تبدیلی واقع ہوتی ہے جس سے ذہنی امراض خصوصا ذہنی دباؤ کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔  پھلوں میں لیموں، آم اور مالٹے کی خوشبو ذہنی دباؤ امراض کم کرنے میں مدد دیتی ہے ہربز میں پودینہ جبکہ پھولوں میں گلاب کی خوشبو انسان کے ذہنی و جسمانی کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے۔ اس کی خوشبو سے یادداشت میں اضافہ ہوتا ہے الزائمر کی مرض سے بچا ؤ میں انتہائی موثر ہے۔ الزائمر ایک دماغی بیماری ہے جس سے بہت آہستگی کے ساتھ متاثرہ فرد اپنی یادداشت کھو دیتا ہے ۔ رات کے اوقات میں گلاب کی خوشبو سونگھنے سے افراد کی ذہنی صحت پر انتہائی مفید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انسانی دماغ کا اہم حصہ'' ہیپو کیمپس ''یادداشت کا ذخیرہ ہوتا ہے۔ رات کے وقت خوشبو سونگھنے سے دماغ کے اس اہم حصہ کی کارکردگی بڑھ جاتی ہے اور انسان کی یادداشت کو مضبوط بنا دیتی ہے۔

Thursday, 19 September 2013

خوشبو کے سفیر بنیئے

زراعت میں اکثر ہورٹیکلچر کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، جس سے مراد تزئین و آرائش کیلئے استعمال ہونے والے پھولوں اورپودوں کی
باغبانی ہے۔ دنیا بھر میں پھول خوبصورتی کے لئے لگائے جاتے ہیں اور ان سے ماحول کی رعنائیت اور تازگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ دنیا میں پھولوں، درختوں اور بیلوں کے ذریعے ایسے شاندار شاہکار بنائے گئے ہیں جو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ امریکہ اور افریقہ کے مختلف شہروں میں پھولوں اور درختوں کے ذریعے بادشاہوں، شاعروں اور تاریخی شخصیات کے مجسمے تک بنائے گئے ہیں جو انتہائی دلکش اور دیدہ زیب ہیں۔ یقیناًان فن پاروں کو بنانے کے لئے بہت محنت کی گئی ہے۔
باغبانی ایک قدیم اور بہترین مشغلہ ہے اور دنیا بھر کے لوگ اسے برسوں سے اپنائے ہوئے ہیں۔ پھول، پودے اور درخت انسان کیلئے خاص اہمیت رکھتے ہیں، کیونکہ طبعیت کی خوشگواری میں پودوں اور پھولوں کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ لوگ عموماً اپنے گھر کے باغ اور سبزے میں خوبصورتی کے لئے پھول اور پودے جبکہ پھلوں کے لئے درخت لگاتے ہیں۔
شاعری سے لیکر ثقافتی اور علاقائی روایات تک، پھول ایک ایسی اہم چیز ہے جو تمام گلے شکوں کو دور کر دیتا ہے اور اسی لئے دنیا بھر میں خلوص و محبت کے اظہار کا بہترین ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ پھول نہ صرف ماحول میں خوبصورتی پیدا کرتے ہیں بلکہ دنیا بھر میں ان سے انتہائی منافع بخش کاروبار بھی کیا جاتا ہے۔
سال ۲۰۰۵ء کے دوران چین میں زرعی سائنسدانوں کے ایک گروپ نے ۸ سالہ تحقیق کے بعد ’’اورکیڈ‘‘ کی ایک نئی قسم تشکیل دی ہے جس کی شکل اور پتیاں دیگر تمام پھولوں سے مختلف تھیں۔ یہ پھول نہایت منفرد نوع کا حامل تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس کی فروخت ۱۶ لاکھ ۸۰ ہزار ڈالرز میں کی گئی۔ اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ باغبانی یا ہورٹیکلچر کے ذریعے کاروبار کسقدر منافع بخش ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ’’کاڈوپل‘‘ نامی پھول کا شمار بھی مہنگے ترین پھولوں میں کیا جاتا ہے۔ اس پھول کی سب سے اہم خصوصیت اس کا آدھی رات کے وقت کھلنا اور پھر مرجھا جانا ہے۔ ’’کاڈوپل‘‘ کو سری لنکا می چند ایک مقامات پر دیکھا گیا ہے۔
دیگر مزید مہنگے پھولوں میں سیفرون، کیننا، چیری بلوسم، کولریڈو کمبائن، ہائیڈرینجیا، للی آف دی ویلی، بلیک آئڈ سوسن، بلیڈنگ ہرٹ، بلو بیلز، لینتانا، گلاب، اوینٹل پوپی، موسائنڈا اری تھو پائیلا، بیگونیا، لزورا اور ڈینڈ روبیم شامل ہیں۔
دنیا بھر میں پھولوں کی پیداوار کے ذریعے قیمتی زرمبادلہ بھی حاصل کیا جاتا ہے، جبکہ اس کاروبار میں صرف ایک ہی مسئلہ ہے کہ پھول کی نشوونما، ان کی خوراک، روشنی اور مناسب جگہ کے انتخاب کیلئے متعلقہ اہم اور مفید معلومات کا حصول۔
پھولوں کی پیدا وار اور نشوونما کے لئے جاپان دنیا بھر میں اپنا خاص مقام رکھتا ہے، جبکہ چینی سائنسدانوں کے مختلف گروپس کی توجہ بھی ہورٹیکلچر انڈسٹری پر ہے۔ چین کے زرعی سائنسدان مختلف تحقیق کے ذریعے پھولوں کی نئی اقسام تیار کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں جس سے انہیں بے مثال منافع بھی حاصل ہوتا ہے، کیونکہ اس طرح کی صرف ایک یا دو اقسام کے پھولوں کی قیمت لاکھوں ڈالر میں وصول کی جاتی ہے۔
پاکستان کے مختلف علاقوں میں بھی لوگ باغبانی میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں، جبکہ صوبہ پنجاب اور سندھ کے علاوہ گلگت بلتستان اور دیگر شمالی علاقہ جات میں پھلوں اور پھولوں کے باغات بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
پھولوں کی باغبانی برصغیر پاک و ہند کی قدیم روایات میں شامل ہے، کیونکہ ہمارے یہاں گلاب، موتیا، چمبیلی، ٹیولپس اور دیگر پھولوں اور ان کی پتیوں کو شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ پاکستان سے روایتی پھولوں کی چند اقسام کو مشرق وسطٰی کے ممالک میں بھی برآمد کیا جاتا ہے اور ویلنٹائن ڈے کیلئے پاکستان کے گلاب کو یورپی ممالک میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
گزشتہ چند سال سے مغربی ثقافت کی یلغار نے پاکستان میں مقامی طور پر بھی گلاب کے پھولوں کی قدر و قیمت میں بے پناہ اضافہ کیا ہے، اور اب نیو ایئر، ویلنٹائن ڈے اور اسی نوعیت کی دیگر تقریبات کے موقع پر گلاب کے پھولوں کی فروخت ریکارڈ سطح پر پہنچ جاتی ہے۔ پاکستان میں بہترین گلاب کی اقسام پنجاب کے علاوہ شمال مغربی علاقوں کی وادیوں اور بلوچستان کے پہاڑی علاقے میں حاصل کی جاتی ہے۔
تجربات کے ذریعے گلاب کی متعدد نئی اقسام بنائی گئی ہیں جن میں سفید، پیلا، خوشبودار اور غیر خوشبودار پھول شامل ہیں، جبکہ گلاب کے پھول کا عرق بھی مشرقی روایات کا حصہ اور اہم کاروباری جنس سمجھاجاتا ہے۔ یونانی طریقہ علاج میں تازہ گلاب سے تیار کیا گیا مرکب یعنی گلقند متعدد بیماریاں دور کرنے کیلئے دوا کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ دیسی گلاب کو سونگھنے سے ہی دل کی دھڑکن میں نظم اور دماغ کو بیداری و قرار حاصل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ گلاب کا پھول عطر یا پرفیوم بنانے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
کاروبار کے اعتبار سے چمبیلی کے پھول کی خوشبو بھی پھولوں کی دنیا میں ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ یہ پھول رات کے وقت اپنی تازگی کا جادو جگاتا ہے۔ جس جگہ چمبیلی کا پودا لگا ہو وہ علاقہ خوشبو سے مہک اٹھتا ہے۔ چمبیلی کے پتوں سے چائے تیار کی جاتی ہے، جسے چین کے باشندوں نے متعارف کروایا تھا۔ چمبیلی کی چائے ذہنی اور جسمانی تھکان میں سکون کا باعث بنتی ہے جبکہ چمیلی سے تیار کیا جانے والا تیل بھی مہنگے داموں فروخت ہوتا ہے، کیونکہ چمیلی کے بیشمار پھولوں سے صرف چند قطرے تیل ہی نکلتا ہے۔ چمبیلی کا تیل چین، بھارت، مراکش اور مصر کی اہم مصنوعات میں شامل ہے۔
پاکستان میں باغبانی کی ترقی کیلئے ہورٹیکلچر سو سائٹی آف پاکستان (ایچ ایس پی) سرگرم عمل ہے۔ اس سوسائٹی کا قیام ۱۹۴۸ء کے دوران عمل میں لایا گیا جس کے بعد ایچ ایس پی کے تحت کراچی میں طبی خصوصیات کے حامل پھولوں کی پہلی نمائش ۱۹۴۹ء میں منعقد کی گئی۔ یہ سوسائٹی باغبانی کو فروغ دینے کیلئے پھولوں کی متعدد نمائشوں اور تربیتی پروگرامز کا انعقاد نہایت کامیابی سے کر چکی ہے، جبکہ شہری ماحول کو خوبصورت بنانے اور پھولوں کی تازگی بکھیرنے کے لئے ایک بھی یہ سو سائٹی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
پاکستان میں باغبانی کے فروغ کیلئے وزارت تجارت کی جانب سے پاکستان ہورٹیکلچر ڈیویلپمنٹ اینڈ ایکسپورٹ کمپنی (پی ایچ ڈی ای سی) تشکیل دی گئی ہے، جبکہ پاکستانی ہورٹیکلچر مصنوعات کو بیرون ملک متعارف کرانے کی ذمہ داری بھی اسی ادارے کو دی گئی ہے۔ اس کے دیگر فرائض میں انفراسٹرکچر، مثلاً ایگرو پروسیسنگ زون، کولڈ چین سسٹم اور پروسیسنگ پلانٹ وغیرہ کی دیکھ بھال شامل ہیں۔
پاکستان کی ہورٹیکلچر انڈسٹری کو عالمی سطح پر متعارف کروانے کے وسیع مواقع موجود ہیں، جبکہ ہماری سرزمین ایسے خوبصورت پھولوں اور نباتات کی دولت سے مالا مال ہے جو دنیا بھر کے قدرتی حسن سے محبت رکھنے والوں اور ہورٹیکلچر کے شعبے سے وابستہ کاروباری افراد کے لئے باعث کشش ہیں۔ پاکستانی پھولوں اور پودوں کی دنیا بھر میں مانگ ہے، لیکن انہیں عالمی منڈی میں متعارف کروانے کیلئے منظم طریقہ کار کی ضرورت ہے، تاکہ ہورٹیکلچر مصنوعات کی برآمدات میں اضافہ کیا جاسکے۔
پھول قدرت کا حسین تحفہ ہیں، اس کےلیئےخوشبو کےسفیربننا ھوگا ۔

گل داؤدی (Chrysanthemum)


گل داؤدی (Chrysanthemum) خزاں اور ابتدائی موسم سرما کا اہم پھول ہے۔ اسکے کئی رنگ، نمونے اور قسمیں ہیں۔اس وقت دنیا میں اس پھول کی تقریباً 5 ہزار سے زائد اقسام موجود ہیں۔ یہ پھول انتہائی خوبصورت ہوتے ہیں۔ پھول کافی دن کھلا رہتا ہے۔ گل داؤدی کی نمائش بہت لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ پاکستان میں گل داؤدی کی نمائش اسلام آباد، راولپنڈی، جہلم،لاہور اور کراچی میں ہوتی ہیں۔


Tuesday, 17 September 2013

میرا گھر پاکستان

بسم الله الرحمن الرحيم
میرا گھر پاکستان
پاکستان چند الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ ان ھزاروں مسلمان شہدہ کی قربانیوں کا نام ھے۔جنہوں نے انگریز وھندو کی غلامی سے آزاد ھوکر اپنے گھر پاکستان کی طرف ہجرت کی ،میری یہ پہلی تحریر ان پاکستانی ماں بہنوں بھائیوں کے نام جنہوں نے میرا گھر پاکستان کو میرا بنایا۔